وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظور ی دے دی


اسلام آباد(صباح نیوز) وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی، پالیسی کے تحت شہریوں کے تحفظ اور معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں 18 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی۔

نیشنل سیکیورٹی پالیسی قومی سلامتی ڈویژن کی جانب سے پیش کی گئی، پالیسی سنہ 2022 تا 2026 کے لیے ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے تحت شہریوں کے تحفظ اور معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ قومی سلامتی پالیسی کی گزشتہ روز نیشنل سیکیورٹی اجلاس میں منظوری دی گئی تھی، پالیسی پر عملدر آمد کے لیے پالیسی فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سیاسی، معاشی اور کرونا وائرس کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ کابینہ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔

کابینہ اجلاس کے بعد اسلام آباد میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے  اعلان کیا کہ وفاقی کابینہ نے ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ملک کا اگر قومی سلامتی ویژن کلیئر نہ ہو تو اس کے نیچے پالیسیاں اور حکمت عملی بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، اس پالیسی میں قومی سلامتی کے تمام پہلوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جامع قومی سلامتی کی بات کرے گا اور سلامتی کا مقصد پاکستان کے عام شہری کا تحفظ ہوگا، پالیسی میں قومی سلامتی کا بنیادی نکتہ اقتصادی سلامتی ہوگی کیونکہ اقتصادی سلامتی سے جب معیشت مضبوط ہوگی تو ہمیں ملٹری سیکیورٹی اور انسانی سیکیورٹی پر بھی اخراجات کرنے کے وسائل دستیاب ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پالیسی میں خارجہ امور کے حوالے سے ہمارا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ امن ہے اور امن ناصرف پڑوسی ممالک بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی۔

معید یوسف نے کہا کہ جب ہم قومی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ثقافتی، نسلی تنوع کی بات آتی ہے اور چاہتے ہیں کہ اس کے ارد گرد ہمارا اتحاد قائم ہو، انسانی سلامتی میں ہم نے سب سے زیادہ آبادی کو اہمیت دی ہے، اس کے بعد صحت، ماحولیات اور پانی، تحفظ خوراک اور پھر جنس کو اہمیت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی سلامتی کے اہم نکات میں بیرونی عدم توازن جس کی وجہ سے ہمارا کرنٹ اکانٹ خسارہ بڑھتا ہے، توانائی سیکیورٹی اور تعلیم کو ہم نے معیشت میں شامل کیا ہے کیونکہ تعلیم کے ایک حصے کا تو قومی سلامتی سے تعلق ہے جس میں اتحاد اور انتہا پسندی شامل ہے، دوسرا مسئلہ تعلیم سے جڑا انسانی وسائل کی پیداوار ہے جس سے ملک میں بھی فائدہ ہوگا اور انسانی وسائل کی برآمد بھی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کی تشکیل کا عمل 2014 میں شروع ہوا تھا، اس میں بہت پیچیدگیاں اور حساس معاملات ہیں، اس عرصے میں وزارتوں کے چار رانڈز ہوئے، صوبوں سے تجاویز آئیں، سول ۔ ملٹری قیادت اور اداروں نے مل کر کام کیا اور پالیسی میں تمام وزارتوں، سول ۔ ملٹری اداروں کا اتفاق ہے۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اس پالیسی میں 2014 سے آج تک 600 سے زائد پاکستانی ماہرین، ماہرین تعلیم، طلبہ اور نجی شعبے سے ہم نے ان پٹ لیا گیا، نظام کے اندر اور باہر بہت مشاورت کے بعد یہ پالیسی سامنے آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسے قومی سلامتی پالیسی اون کرتی ہے، اس پر عملدرآمد کا پورا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور گزشتہ روز وزیر اعظم نے قومی سلامتی ڈویژن کو ہر ماہ قومی سلامتی کمیٹی کو یہ اپ ڈیٹ دینے کی ہدایت کی ہے کہ کونسی چیزوں پر عملدرآمد ہوگیا، کہاں مسائل ہیں اور وہ کیسے حل ہونے ہیں۔

قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں معید یوسف نے کہا کہ اقتصادی تحفظ کے ساتھ پالیسی پر اب سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا۔ انہو ں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے، یہ منظوری تاریخی کامیابی ہے۔معید یوسف کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے پالیسی کی توثیق کی تھی، وزیر اعظم جلد پالیسی کا اجرا کریں گے، اقتصادی تحفظ کے ساتھ پالیسی پر اب سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا۔ پالیسی مختلف شعبوں کی پالیسیاں بنانے میں معاون ہوگی۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ پالیسی کی حمایت پر سول اور عسکری قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، وزیر اعظم کی حوصلہ افزائی کے بغیر پالیسی کا منظور ہونا مشکل تھا، پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس کے نفاذ پر ہے جس کی حکمت عملی تیار کرلی۔