احساسات۔۔۔تحریر: کنول اعوان


احساسات عربی زبان کا لفظ ہے اور احساس کی جمع ہے ہے جس سے مراد محسوسات یا محسوس کی ہوئی بات ہے۔احساسات کو ہماری زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ کوئی بھی انسان ایسے سات کے بغیر مکمل انسان نہیں ہو سکتا یعنی یہ کہنا بجا ہوگا کہ احساس جیسی صفت انسان کو کامل انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہر وہ انسان جو احساسات کے جذبے سے معمور ہوتا ہے وہ ایک مکمل انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔
احساس کی اہمیت کا اندازہ ہمیں تب ہی ہوتا ہے جب ہم اپنی زندگی میں دوسروں کا احساس کرتے ہیں اور کوئی دوسرا ہمارا احساس کرتا ہے ہمیں دوسروں کی فکر ہوتی ہے کسی بھی انسان کی فکر کرنا احساس کے زمرے میں آتا ہے لوگوں کی ضرورتیں اس وقت پوری کردی جائیں جب انہیں ہماری ضرورت ہو وقت پہ کسی کے کام آنا ہی اصل احساس اور احساس ذمہ داری ہے احساسات ہم بہت سے لوگوں کا دل جیت لیتے ہیں اور یوں ایک وقت آتا ہے جب ہم دوسروں کے لیئے باعث عزت ہوتے ہیں اور باعث سکون ہوتے ہیں ہم لوگوں کے دلوں میں راج کرتے ہیں ایسا صرف احساسات کے ذریعے ہی ہوتا ہے احساس کرنا کسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ احساس کرنا ہر دوسرے انسان کی ذمہ داری ہے۔ ہماری زندگی میں جو ہمارا احساس کرتا ہے لازمی ہے کہ ہم بھی اس کا احساس کریں کریں تاکہ حساس ایسا جذبہ ہمارے درمیان موجود رہے۔
احساسات سے متعلق بہت سارے سوالات اندر ہی اندراکثر مجھے جھنجھوڑتے ہیں یہ سوالات مجھے بے چین اور مضطرب کئے رکھتے ہیں کہ حساس کس چیز کا نام ہے۔ احساسات انسان کے اندر کیسے جنم لیتے ہیں؟کیا احساسات کو موت آ سکتی ہے یا پھر احساسات کو قتل کیا جا سکتا ہے؟اگر ایسا ممکن ہے تو کیا انسان خود اپنے احساسات کا قاتل کو سکتا ہے یا پھر انسان سے وابستہ اس کے عزیز انسان کے احساسات کو مار دیتے ہیں؟کیا ہمارے حالات ہمارے احساسات کے قاتل ہو سکتے ہیں ہیں پھر ہمارا ماحول جس میں ہم پرورش پاتے ہیں وہ ہمیں مجبور کر سکتا ہے ؟خود سے ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے احساسات کا خون ہو جائے؟کیا ہماری مجبوریاں ہمارے احساسات کو کفن پہنا سکتی ہیں؟کیا انسان مجبوریوں کے سامنے ہار سکتا ہے؟احساس پروگرام چڑھتے ہوئے جب احساسات کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور جب احساس واحد سے جمع تک کا سفر کرتا ہے تو کیا انسان احساسات کے سہارے زندگی گزار سکتا ہے ؟
اس طرح کے بہت سارے سوالات میں نے خود سے کیے اور ان جوابات کے لیے میں آج تک ناآشنا رہی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے ہی ضمیر نے مجھے کچھ سوالوں کے جوابات بڑےہی سکون سے دیے وہ کچھ یوں کہ دراصل احساس دوسروں کی پرواہ کرنے کا نام ہے احساس دوسروں کی فکر کرنے کا نام ہے۔احساس دوسروں کو خوش کرنے اور خوش رکھنے کا نام ہے۔احساس خود تکلیف اٹھانے اور دوسروں کو تکلیف سے بچانے کا نام ہے۔ احساس معاف کرنے اور معاف کر دینے کا نام ہے احساس کسی دوسرے کی مشکل کو اپنی مشکل مان لینے کا نام ہے۔ احساسات ہمارے اندر تب ہی جنم لیتے ہیں جب ہمیں بچپن سے ہمارے ماں باپ دوسروں کے لیے جینا سکھاتے ہیں کیوں کہ جب ہم اپنے لیے جیتے ہیں ہیں ہمیں ہمارا ہی خیال رہتا ہےتو پھر جب ہم اپنا ہی احساس کرتے رہیں گے تو دوسروں کے لئے کب سوچیں گے اور دوسروں کے لیے حساس کیسے جنم لے گا گا کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے۔ کہ ہمارے اپنے ہی ہمارے احساسات کو مار دیتے ہیں ہیں کبھی جنم لینے سے پہلے اور کبھی جنم لینے کے بعد اور پھر احساس پروان ہی نہیں چڑھتاایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اپنےاحساسات کے قاتل ہوتے ہیں حالات دیاں مجبوریاں نے ایسا کرنے پر مجبور کر ہی دیتے ہیں ہیں کبھی کبھار ہمارا ماحول جس میں ہم پرورش پاتے ہیں وہ ایسا نہیں ہوتا جہاں احساس جملے یا پروان چڑھے ے اور یوں نہیں ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اسلام اور بنا لیتے ہیں جہاں لوگ صرف دل لے کے گھومتے ہیں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کتی کوئی جئے یا مرے کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا یعنی ایسا ماحول جہاں بے حسی جنم لیتی ہے اور پروان چڑھتی ہے۔
زندگی صرف ایسے نہیں گزر سکتی کہ ہم ہر پل دوسروں کا سوچے ان کی فکر کریں اور ان کی پرواہ کریں ان کی ضرورت پوری کریں اور ہمارا خیال کرنے والا کوئی نہ ہو۔ یوں تو پھر کسی کمزور لمحے میں انسان تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اس میں یہ احساس کرنا صرف کےسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ سب کی ہے تاکہ کوئی تھکے نہ اورنہ کوئی اکتاے تاکہ ہمت بنی رہے جذبوں میں جوش باقی رہے تو میرے ہی سوالوں کے جواب میرے ہی ضمیر نے مجھے بڑے سکون سے دیے لیکن ان جوابوں کے بعد بعد میرے ضمیر نے مجھ سے ایک سوال کیا؟جو میری زندگی بنا گیا یا زندگی کی بنیاد ہے ہے جسے ساتھ لے کے میں آگے بڑھتی ہو وہ سوال یہ تھا کہ کیا انسان احساسات سے عاری ہو سکتا ہے؟احساس ہی تو انسان کو انسانیت کے عہدے پر فائز کرتا ہے اور احساس ہی سے سے لوگوں کے دلوں نے انسانیت باقی رہتی ہےے۔ اگر لوگوں کے دلوں میں انسانیت ہی نہ ہو تو تو تو احساس کیسےجنم لےگا اور کیسے پروان چڑھے گا
پھر میرے دل سے آواز آئی۔ انسان احساسات سے عاری نہیں ہو سکتا اور جو انسان احساسات سے عاری ہو جائے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا انسان کے اندر انسانیت باقی رہے ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے اندر احساس ہو ہو اور وہ دوسروں کا احساس کرے کرے تاکہ اس کی زندگی میں آسان ہو اور وہ کسی دوسرے کی زندگی کو بھی آسان بنا سکے جب انسان انسان ہوتے ہوئے بھی انسان نہ رہے اور شیطان ہوتا ہے ہے اور جو شیطان ہوتا ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ شیطان جیسے لوگوں کے دلوں میں ہی تو نفرت اور بے رحمی ہوتی ہے۔
تو پھر میں نے خود سے عہد کیا کیا میں کبھی بھی اپنے احساسات کو خون نہیں ہونے دوں گی حالات کیسے بھی ہوں احساس کا قتل نہیں کروں گی ابھی کسی بھی رشتے یا مجبوری کی وجہ سے میں اپنے احساس کو نہیں ماروں گی
کیا آپ میرے ساتھ وعدہ کریں گے؟کیا خود سے عہد کریں گے؟آج ہم خود سے عہد کرتے ہیں کسی بھی مجبوری حالات رویے یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کے دباؤ میں ہم کبھی بھی اپنے احساسات کی میت کو اپنی میت سے پہلے نہیں ہوتے دیں گے گے ہم اپنے احساسات کا خون نہیں ہونے دیں گے اے تو کہ احساس ہی ہمیں انسان بناتا ہے ہے اور ہم انسان رہتے ہیں۔