بارکھان، ایک اور فیصلہ کن موڑ : تحریر محمود شام


ہم غریب ، تنخواہ دار انہیں ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ہماری مشکلات آسان کریں گے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا ہماری قوت خرید کے مطابق فراہم کرنے کا سسٹم بنائیں گےلیکن وزیراعظم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اوربڑھے گی۔ آئین کے تحت ریاست اور خلق خدا کے درمیان معاہدہ تو یہ ہے کہ ریاست اورحکومت ہماری جان ومال کی حفاظت کریں گی۔ ہماری خوراک کا بندوبست کریں گی۔ ہماری تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کا خیال رکھیں گی۔ ہم اس کے لئے اپنی گاڑھے پسینے کی کمائی میں سے انہیں ٹیکس ادا کریں گے۔ ٹیکس تو ہم دے رہے ہیں۔ ہر قدم پرڈبل روٹی، انڈوں، آٹے،دودھ پر۔ اب مزید ٹیکس بھی دینا ہوں گے۔ پیٹرول پر، بجلی پر لیکن ریاست تو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ۔ ہماری آمدنی تو ٹھگنی ہوتی جارہی ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں بلند قامت ہوتی جارہی ہیں۔ اتنی اونچی کہ ہماری تنخواہیں سر پورا اٹھا کر انہیں دیکھنے سے بھی عاری ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔

ہمارے حکمران تو یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ ہماری آمدنی اور ہمارے انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر اخراجات میں یہ فرق کب تک اسی طرح بڑھتا رہے گا۔ ہماری تنخواہیں کیا ہمارے اخراجات کے برابر سر اُٹھاکر کھڑی ہوسکیں گی۔اسی کوشش میں معیشت کا گھوڑا بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران تو یہ بھی مؤقف رکھتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔ کوویڈ نے کل جہان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ تو اس کا ذمہ دار عمران خان کی 2018 سے اپریل 2022 کی حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں۔ کتنی تنگ نظری ہے۔ وہ معیشت کو ٹھیک کرنا نہیں چاہتے صرف خان کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں، دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے، ایک دوسرے کے حال احوال جاننے کا دن۔ معاشی طوفان شدت اختیار کررہا ہے۔ تنگدستی میں اضافہ ہورہا ہے۔ زکوٰۃ کے مستحقین بڑھ رہے ہیں۔ آنے والا ہر نیا لمحہ یہ تقاضا کررہا ہے کہ ہمیں اپنا رہن سہن بدلنا ہوگا۔ ایک سسٹم وضع کرنا ہوگا۔ معاشی طورپر نظم و ضبط میں آنا ہوگا۔ ایدھی، چھیپا، عالمگیر، سیلانی، اخوّت اور ایسی قابل قدر تنظیمیں اپنی جگہ بعض پاکستانیوں کا ہاتھ تھام رہی ہیں۔ یہ مسئلے کا عبوری حل تو ہوسکتا ہے۔ اسے مستقل اہتمام بنانے سے ہماری قوم کی صلاحیتیں بنجر ہوتی جائیں گی۔ خیرات پر پلنے کا چلن کسی قوم سے غیرت اور خودی چھین لیتا ہے۔ زمین سے فی ایکڑ پیداوار نہیں بڑھتی ۔ کارخانے ریشم کے تار نہیں بُنتے۔ پہاڑوں میں چھپا سونا تانبا اس قوم کا مقدر نہیںبنتا۔ عالمی بینک، عالمی مالیاتی ادارہ اس قوم سے غلاموں جیسا سلوک کرتا ہے۔ہم بحیثیت قوم ان دنوں مالی غلامی سے گزر رہے ہیں۔ لاکھوں ووٹ سے منتخب ہونے والا وزیراعظم آئی ایم ایف کے سامنے ایک بندھوا مزدور بنا ہوا ہے۔

امید کی کرن یہ ہے ۔ پاکستانی دالبندین سے واہگہ تک واٹس ایپ گروپوں میں منسلک ہورہے ہیں۔ حکمراں طبقوں، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے عوام کوآپس میں لڑوانے کے پرانے ہتھکنڈے سوشل میڈیا نے ناکام بنا دیے ہیں۔ لینڈ مافیا، واٹر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، فوڈ مافیا آتے سماجی اور سیاسی شعوروں کی آہٹیں سن کر خوف زدہ ہیں۔ یہ منظر نامہ صرف پاکستان میں نہیں ہے۔ یہ بھارت میں بھی ہے۔ افغانستان میں بھی۔ ایران میں بھی۔ نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی۔ بلوچستان، جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب، سندھ، کے پی کے، گلگت بلتستان،آزاد جموں و کشمیر کے پامال، مجبور اکثریت کے دل فیس بک واٹس ایپ پر ایک ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ بارکھان کا رجحان اس کی تازہ ترین گواہی ہے۔ سرداروں کی چٹانیں ریزہ ریزہ ہورہی ہیں۔ اب انسان نیلام نہیں ہوسکتے۔ جیتے جاگتے نوجوانوں، عورتوں، بچیوں کی سانسیں گروی نہیں رکھی جاسکتیں۔ بارکھان ایک فیصلہ کن موڑ ہے،جو ہمارے سماج کو للکاررہا ہے کہ ہم از خود اپنے آپ کو تبدیل کرلیں۔ ورنہ حالات کا دھارا جب تبدیلی لائے گا تو وہ خون میں ڈوبی ہوئی ہوگی۔

کوویڈ کی عالمگیر وبا نے پوری دنیا کو اقتصادی بحران میں مبتلا کردیا ہے، جن سماجوں میں پہلے سے ایک سسٹم ہے۔ قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ تو اس انحطاط کا مقابلہ ایک منظم انداز سے کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسا سماج جہاں قانون اور آئین کو طاقت ور طبقے اپنا زر خرید غلام ، اپنا ہاری، اپناکمّی، اپنا بندھوا، اپنا اردلی سمجھتے ہیں۔ جہاں مارکیٹ میں کوئی سسٹم نہیں ہے۔ جہاں اکثریت غربت اور بے بسی کو اپنا مقدر سمجھتی ہے۔ وہاںیہ اقصادی دبائو فسادات کا موجب بن سکتا ہے۔ یہ جو ڈاکوؤں کو ہجوم خود زدو کوب کررہا ہے۔ قتل کررہا ہے۔ جلارہا ہے۔ یہ رجحان کچھ کہہ رہا ہے۔!

آمدنی اور بنیادی خرچوں میں فرق پر حکومتیں قابو پانے کی اہل نہیں ہیں۔ جیسے یورپ امریکہ اورمشرق بعید کے بعض ممالک میں سماج نے جینے کے چلن خود بدلے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا کرنا ہوگا۔ اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ ہر پاکستانی گھرانے کو خود ہی مہنگائی کے طوفان کے مقابلے میں بند باندھنے پڑ رہے ہیں کوئی سیاسی جماعت، کوئی مذہبی تنظیم مدد کو نہیں آرہی۔ جو کچھ آپ کے بس میں ہے، وہ تو کریں۔ غریب کو تو پہلے ہی روٹی اس کی بھوک سے بھی کم ملتی ہے۔ متوسط طبقے اور اشرافیہ کو اپنی چادر میں پاؤں پھیلانے ہوں گے۔ بجلی مہنگی ہے تو سورج کی مفت روشنی زیادہ استعمال کریں۔ غیر ضروری بلب جلانے، پنکھے چلانے کی عادت کو رخصت کریں۔ گھروں میں بھی ہر فرد ضرورت کے مطابق کھانا لے لے۔ ڈونگوں کی ثقافت بھول جائیں۔ لباس بھی اپنی سماجی ضرورت کے مطابق، ضروری نہیں کہ جس لان کا اشتہار آ جائے یا سیل لگ جائے تو مائیں بہنیں وہاں ٹوٹ پڑیں۔ یورپ وغیرہ میں خوشحالی کیسے آئی ہے۔ وہاں غیرضروری خریداری نہیں ہوتی۔ ایشیائی یورپی ملکوں میں جانے پر کیوں مجبور ہیں۔ جاپان سے سبق سیکھیں وہ کیسے صنعتی طاقت بن گیا۔ ان ملکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر کیوں بڑھے ہیں۔جذباتی زندگی، جذباتی سیاست، جذباتی عقیدت بھی غیرضروری خرچہ ہے۔ پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے جہاں عمررسیدہ افراد زیادہ ہو گئے ہیں۔

یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں امن، خوشحالی، غیرضروری رسم و رواج، کھانے پینے میں احتیاط، بجلی کے استعمال میں خیالداری سے آئی ہے۔ وہاں بہت کم گھروں میں ماسیاں، چھوکرے اور بندھوا ہوتے ہیں۔ اس لئے انسان کی عزت ہے، وقار ہے۔

سوچئے، ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی ہی قوم کو غیرت مند اور باوقار بناتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ