پاکستان کی دو بنیادی خرابیاں : تحریر انصار عباسی


ہمیں ایک طرف معاشرتی طور پر انتہائی گراوٹ کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت اور ریاست عوام سے متعلق اپنی ذمہ دریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے ہم بحیثیت معاشرہ ہر قسم کی خرابیوں اور برائیوں کا شکار ہیں، کون سی برائی ایسی ہے جو ہم میں موجودہ نہیں۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، ملاوٹ، رشوت، سفارش اور ایسی ایسی اخلاقی برائیاں کہ گننا مشکل ہوچکا۔ حکومتی اور ریاستی مشینری اتنی کرپٹ اور نااہل ہو چکی کہ کسی بھی سرکاری محکمے کا نام لے لیں کوئی اپنا کام ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا نہیں کرتا جس کی وجہ سے عوام کی سہولت اور فلاح کیلئے قائم کیے گئے ان اداروں میں سروس ڈیلوری کی بجائے عوام کو دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔ ان سرکاری محکموں میں بیٹھے سرکاری ملازم جائز سے جائز کام پر بھی عوام کو رُلاتے ہیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے ادا کرنے کی بجائے ایسے کام کرتے ہیں جیسے عوام پر احسان کر رہے ہوں۔ ہمارے معاشرے اور حکومت سے متعلق ان دو بنیادی خرابیوں (اخلاقی و معاشرتی گراوٹ اور حکومتی و ریاستی مشینری کی ناکامی) کے بارے میں جس سے بات کریں سب مانتے ہیں کہ یہ بہت بڑی خرابیاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت ،کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان دو بنیادی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ جب معاشرتی و اخلاقی گراوٹ کوروکنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جائے گی تو پھر اس کا نتیجہ ہمارے ہاںمزید معاشرتی خرابیوں اور نئی نئی اخلاقی برائیوں کی صورت نکلے گا اور یہی کچھ یہاں ہو رہا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت سرکاری وانتظامی مشینری کو اپنی بنیادی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دینے میں دلچسپی نہیں لے گی تو نہ یہاں عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے، نہ ہی ملک و قوم کی ترقی ممکن ہے۔ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کیلئے افراد اور معاشرہ کی کردار سازی کیلئے کام کرنا پڑے گا جس میں تعلیمی اداروں، مسجد و منبر، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے جس کیلئے حکومت کو بنیادی رول ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی حکومت کو ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو نصاب اور نظام تعلیم کا بنیادی حصہ بنانا پڑے گا تو دوسری طرف میڈیا، مذہبی طبقات، سیاسی جماعتوں کے ذریعے معاشرےکی کردار سازی پر فوکس کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ وفاق کی سطح پر موجودہ سیکرٹری تعلیم اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کردار سازی کیلئے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں میں کچھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ وہ بڑا چیلنج ہے جس کیلئے وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کو ذاتی دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو گی، معاشرےکی کردار سازی پر کام ہو رہا ہو گا تو معاشرتی و اخلاقی برائیوں میں خاطر خواہ کمی کے ساتھ ہم بہتر قوم بن جائیں گے۔ حکومت و ریاست سے متعلق ناکامیوں اور نااہلیوں کا اگر ادراک کرنا ہے تو اُس کیلئے سرکاری مشینری کو اپنی ذاتی پسند، ناپسند کی بجائے میرٹ اوراہلیت کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت چلایا جائے۔ یہ نظام ہماری سرکاری فائلوں میں تو موجود ہے لیکن سفارش ، اقرباپروری اور ذاتی پسند،ناپسند کی وجہ سے ہماری سرکاری مشینری مکمل سیاست زدہ ہو چکی جس کی وجہ سے ہم نااہل حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہیں۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کیلئے بہتر طرز حکمرانی کا بڑا آسان نسخہ ہے کہ وہ سول سروس اور پولیس یعنی سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر دیں، ہر تعیناتی میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کی جائے اور یہ کام اُنہی اداروں کو کرنا چاہیے جو اس مقصدکیلئے بنائے گئے۔ اس سے ہر سرکاری محکمہ کے کام میں بہتری آئے گی۔ حکمران اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر کے صرف فوکس اس نکتہ پر رکھیں کہ کون سا سرکاری ادارہ اور کون سا سرکاری افسر اپنی ذمہ داری اور ڈیوٹی ادا کرنے میں ناکام ہے۔ جب سرکاری ادارے اپنا کام کریں گے تو عوام خوش ہونگے اور ملک ترقی کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ