اسلام آباد (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ میں یہی چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ ہم تمام جماعتیں مل کر ایک ایسے الیکشن کے نظام پر اتفاق کر لیں جس میں دھاندلی کے راستے بند ہو جائیں اور ایک شفاف الیکشن ہوجائے، مجھے افسوس ہے کہ پاکستان میں جو الیکشن کا نظام ہے وہ شفاف نہیں ہے۔ قوموں کے عروج اور زوال یا ایک فرد کی ترقی اور زوال کا معیار دولت اور سرمایہ نہیں بلکہ صلاحیت ہے۔سیاست نام ہی جھوٹ نہ بولنے کا ہے اور جو لوگ جھوٹ کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں ، ٹھیک ہے وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بالآخر شرمندگی کے ساتھ اس کو جانا بھی پڑتا ہے۔
ان خیالات کااظہار سراج الحق نے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔سراج الحق نے کہاکہ مشترکہ خاندانی نظام میں بہن، بھائی ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں چار جگہ آگ جلتی ہو اور چار جگہ کچن ہو تو زیادہ خرچہ آتا ہے ، بھائی کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ جدائی نہیں چاہتے لیکن یہ جو خواتین ہوتی ہیں ان کی وجہ سے بھائی پریشان ہوتے ہیں اور پھر فاصلے بنتے ہیں ورنہ ایک ماں، باپ کی اولاد تو مرنے تک ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ مہنگائی کاتوڑ بھی یہی ہے کہ مل کررہیں اور جمع کر کے اکٹھا کھائیں اور اکٹھا خرچ کریں اس میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمارے دین میں سب سے زیادہ احترام خواتین کا ہے۔
انہوں نے کہاکہ میرا گائوں پاک افغان بارڈر پر ہے اور اس کا نام کھاکس ہے۔پرائمری سے لے کر میٹرک تک میں نے 9سکول تبدیل کئے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب دوستی انسان کو غربت اور امارت سے اٹھا کر ایک اور جہان میں لے جاتی ہے،اگر آپ فرش پر ہیں تو بھی آپ کو عرش تک لے جانے کا راستہ دکھاتی ہے، سیدمودودی کے لٹریچر کی وجہ سے میرے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا کہ ہم کیوں نہ اپنی سوسائٹی اور معاشرے کو لیڈ کریں اور پھر اسلامی انقلاب کا ایک خوبصورت نعرہ اس نے دیا کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں برابری ہو ، ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں محمود اور ایاز ایک صف میں نظر آئیں اور ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں رزق حلال کمانا آسان ہو ، ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں نکاح کرنا آسان ہو، ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں مظلوم بھی نہ ہو اورظالم بھی نہ ہو اور ایک ایسا معاشرہ ہو جس میں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو،بلکہ سب مل کر نیکی کریں اور اللہ تعالیٰ کے بندے بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سید مودودی کے ان تصورات نے ہمارے ذہن اور قلب کو اس طرح فتح کیا تھا کہ پھر اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کیا۔ امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ جس پرائمری سکول میں، میں پڑھتا تھا اس کو میں نے ایم پی اے بننے کے بعد ہائی سکول بنایا اور اپنے حلقے میں چار کالجز بنائے اور ہر یونین کونسل میں ہائر سیکنڈری سکول بنائے۔ جہاں میں زمین پر بیٹھ کر تختی لکھتا تھااب وہاں بہت خوبصورت اور شاندار سکول ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پھر میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور اس کے بعد میں بغیر کسی سفارش یا رشوت کے ایک سکول میں ہیڈماسٹر بھرتی ہو گیا اور پھر میں نے استعفیٰ دے دیا، میں نے استعفیٰ اس لئے دیا کہ میں اپنی بقیہ زندگی سرکار کے تحت گزاروں گا اور ایک ایسے نظام کے تحت گزاروں گا جس سے مجھے اتفاق نہیں ہے، جب میں نے استعفیٰ دیا تو رشتہ داروں نے مجھے بہت ڈانٹا اور والد صاحب بھی بہت پریشان تھے لیکن میری ماں نے پھر مجھے سہارا دیا، میں نے اپنا پورا پلان رکھا کہ امی میں اس نظام کے تحت غلام رہوں گا اور پھر امی سے یہی عرض کیا کہ میری قسمت میں جو دانا اور پانی ہے وہ ضرور مجھے ملے گا، نوکری کے بغیر بھی مجھے ملے گا ، میری ماں نے پھر میرا ساتھ دیا اور کہا بیٹے جہاں آپ کی مرضی ہے وہی کام کرو اور اپنے نظریے کے ساتھ جیو، میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ مجھے سہارا نہ دیتی تو میرے لئے وہ ہیڈماسٹر ما منصب چھوڑنا مشکل ہوتا، اس لئے کہ غربت میں تو میرے والدین میری اس نوکری کے انتظار میں تھے، اس آزاد فکر کی وجہ سے میں نے سرکاری نوکری چھوڑ دی اور اپنی ساری زندگی جماعت اسلامی کے لئے وقف کردی۔
سراج الحق نے کہا کہ سیاست بنیادی طور پر اصلاح کا نام ہے، اگر آپ گھر کی صفائی کرتے ہیں تو گھر کی سیاست ہے، اگر معاشرے کی صفائی کرتے ہیں تو یہ معاشرے کی سیاست ہے۔معاشرے میں یہ سوچ ہے کہ سیاست اور جھوٹ لازم و ملزوم ہو گئی ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دل کی بات کروں تو اب تک کوئی ایسی خصوصیت تو میں نے اپنے اندر محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے امیر جماعت اسلامی بنا، کوشش کرتا ہوں کہ اچھا کارکن بنوں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے، جماعت اسلامی چونکہ حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، جمہوری اور ترقی پسند جماعت ہے ، ہمارے ہاں جوبھی منصب ہو ہم اسے آزمائش اور ایک امتحان سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اس امتحان میں کامیاب کرے۔
انہوں نے کہا کہ میں کچن میں بھی چلا جاتا ہوں وہاں مشکلات تو ہوتی ہیں اور میں تندو ر میں روٹی بھی لگا لیتا ہوں تاہم ہمارے ہاں خواتین پسند نہیں کرتیں کہ شوہر کچن میں آجائے اور ان کی حکومت میں کوئی مداخلت کرے، کچن واحد جگہ ہے جہاں گھر کی مالکہ کی حکومت ہوتی ہے،میرے گھر میں کوئی بہتری ہے یا بہتر مینجمنٹ ہے توہ مجھ سے زیادہ میری اہلیہ کی وجہ سے ہے۔ ایک سوال پر سراج الحق نے کہا کہ صحیح بات یہ ہے کہ میں سخت مزاج بالکل نہیں ہوں، یہ مجھ سے کچھ دوستوںکا گلہ ہوتا ہے کہ آپ کو غصہ بالکل کم آتا ہے، غصہ آنا ایک فطری چیز ہے لیکن مجھے غصہ کم بھی آتا ہے اوراس کو ضبط بھی کرتا ہوں، اس لئے کہ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے کو ضبط کرے۔