توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کے جواب میں بڑے انکشافات


ہائیکورٹ سے کیا استدعا کی مکمل متن پڑھیں
اسلام آباد(عابدعلی آرائیں)گلگت بلتستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم ایپلیٹ کورٹ کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے توہین عدالت کیس میں اپنا تحریری

جواب جمع کرا دیا ہے، انہوں نے چار صفحات اور بارہ پیراگرافس پر مشتمل تحریری جواب اپنے وکیل لطیف آفریدی کے توسط سے جمع کرایا ہے جس میں رانا محمد شمیم نے
موقف اپنایا ہے کہ توہین عدالت کے شوکاز نوٹس میں جس بیان حلفی کا ذکر کیا گیا ہے وہ بیان حلفی نہ تو انہوں نے میڈیا کو دیاہے اور نہ ہی انہوں نے وہ بیان حلفی اس نیت کے ساتھ کسی کے ساتھ شیئر کیا کہ اس کو پبلک کیا جائے

پیراگراف نمبر دو میں رانا محمد شمیم کہتے ہیں کہ بیان حلفی تحریر کرانے کے پیچھے جو طاقت تھی وہ ان کی مرحوم اہلیہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ تھا جو انہوں نے اپنی اہلیہ کی موت سے قبل کیا تھا انہوں نے اپنی بیوی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ حقائق سامنے لانے کے لئے بیان تحریر کریں گے تاکہ ریکارڈ کو درست کیا جا سکے اسی لئے انہوں نے وہ بیان بیان حلفی کی صورت میں ریکارڈ کرایا اس کے پیچھے صرف جذباتی دباؤاور وہ وعدہ تھا جو انہوں نے اپنی اہلیہ سے ان کی وفات سے قبل کیا تھا۔

رانا محمدشمیم نے کہا ہے کہ اگر ان کا کوئی ایسا ارادہ ہوتا کہ وہ عدلیہ کی تضحیک کرنا چاہتے ہیں تو یہ بیان حلفی وہ پاکستان میں درج کراتے اورمیڈیا کے مختلف اداروں کوجاری کرتے ۔

پیراگراف نمبر 3 میں رانا محمد شمیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ 4 جون 2021 کو ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کا یہ پہلا بیرون ملک دورہ تھا وہ امریکہ سے واپسی پر لندن میں دو روز کیلئے اپنے نواسے کے ہاں ٹھہرے جو قانون کا طالب علم ہے ۔

رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ ابھی تک ان کی یہ خواہش نہیں ہے کہ وہ بیان حلفی کو اپنی زندگی میں پاکستان کے اندرپبلک کریں اس لئے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ وہاں بیان ریکارڈ کر ائیں اور پاکستان سے باہر ہی اس کو نوٹرائیزکروا کر اور محفوظ کسٹڈی میں پاکستان کے باہر ہی اسے رکھیں گے اس سارے عمل کو یقینی بنانے کے لیے میں نے لندن میں نوٹری پبلک کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا ۔اسے لفافے میں سربمہر کرکے میں نے اپنے نواسے کے حوالے کیا اور اسے واضح ہدایت کی کہ وہ نہ اسے کھولیں گے اور نہ ہی اسے کسی کے ساتھ شیئر کریں گے

اپنے بیان کے پیراگراف نمبر4 میں رانا محمد شمیم نے موقف اپنایا ہے کہ ان کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ یہ بیان حلفی اس رپورٹر کے پاس کیسے آیا جس نے اسے خبر بنا کر شائع کیا لیکن یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ پریکٹس ہے کہ اس طرح کے بیانات کی ایک کاپی نوٹری پبلک لندن کے ریکارڈ میں رکھی جاتی ہے

تاہم یہ حقیقت وہی بتاسکتاہے جس نے یہ بیان ریلیز کیا یا انصار عباسی کو فراہم کیا
پیراگراف نمبر 5 میں رانا محمد شمیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس عدالت یعنی اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ
مبینہ بیان حلفی وہ سامنے نہیں لائے اور نہ ہی انہوں نے سرکولیٹ یا شائع کروایا۔

پیراگراف نمبر6میں رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور ان کے درمیان جو بات بھی ہوئی وہ پاکستان کی حدود سے باہر گلگت میں ہوئی
اس لیے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کا کوئی فیصلہ، ڈگری یا ان کی کوئی ہدایت چیلنج نہیں کی اورنہ ہی اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

پیراگراف نمبر 7 میں رانا محمد شمیم میں موقف اپنایا ہے کہ بیان حلفی میں میں جوکچھ بھی کہا گیا ہے وہ اسی بات وہ انہی باتوں پر مشتمل ہے جو میں نے اس وقت سنی جب
گلگت بلتستان میں موجود تھا جب تک یہ ثابت نہیں ہو جا تا کہ میں نے بیان حلفی کسی صحافی یا میڈیاکو دیا ہے اس وقت تک مجھ سے کوئی بد نیتی منسوب نہیں کی جا سکتی

اپنے جواب کے پیراگراف نمبر آٹھ میں رانا محمد سلیم لکھتے ہیں کہ وہ حلف پر وہ باتیں کہہ سکتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیان حلفی میں لکھی ہیں اور وہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہیں
رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ بیان حلفی میں جو واقعہ لکھا گیا ہے وہ 15 جولائی 2018 کی شام تقریبا چھ بجے کا ہے اس وقت ہم اکٹھے سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں چائے پی رہے تھے اور ریفریشمنٹ کر رہے تھے

پیرا گراف نمبر 9میں را نام محمد شمیم لکھتے ہیں کہ جو بیان حلفی سوشل میڈیا کے ذریعے سرکولیٹ کیا جا رہا ہے وہ اس جواب کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں اس کے مندرجات
بالکل وہی ہیں جو انہوں نے اپنے بیان حلفی میں لکھے تھے

پیراگراف نمبر 10 میں رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ وہ قانون کے پابند شہری ہیں وہ کسی بھی صورت عدالتوں کو سکینڈلائزکرنے یا ان کی تضحیک کرنے کا نہیں سوچ سکتے
مزید یہ کہ انہوں نے کبھی کسی عدالت پر دبا ؤڈالنے یا پاکستان کی کسی عدالت میں جاری کارروائی کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔

پیراگراف نمبر 11 میں رانا محمد شمیم نے لکھا ہے کہ وہ ملک کی عدالتوں پر عوامی اعتماد کو مضبوط کرنے اور برقرار رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے وہ ہائی کورٹ کے وقار اور عدالتی عمل کو متاثر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے

پیراگراف نمبر 12 میں رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ وہ بیان حلفی کسی کو جاری کرنے یا کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے الزام سے مکمل طور پر انکار کرتے ہیں تاہم اگر
تاہم اگر اس سب عمل سے یہ عدالت ناراض ہے میں بطور سابقہ جوڈیشل افسر اور بطور عہدیدار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بارکونسل کے عہدے دار کے طور پر معذرت کا اظہار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوں

رانا محمد شمیم نے اپنے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں 19 نومبر کو جاری کیا گیا اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے ۔