دوحہ (صباح نیوز)قطر میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں فلسطین کی ٹیم بھلے ہی نہ کھیل رہی ہو لیکن فٹبال کے اس بین الاقوامی کھیل میں عرب دنیا کے ساتھ ساتھ لاکھوں شائقین بھی ان کے مداح ہیں۔کھیل کے میدان سے لے کر قطر کی سڑکوں اور مشہور مقامات پر آپ کو جابجا فلسطینی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت دوحہ کے معروف بازار کتارا میں ایک سٹال آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہے۔
اس پر ‘غزل العروق’ یعنی محبت کے عرق کا بینر لگا ہے جس سے ہماری توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔ یہ قطر میوزیم کی طرف سے سٹال لگایا گیا ہے جہاں فلسطین میں زردوزی کی تاریخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔یہ نمائش اکتوبر کے مہینے سے جاری ہے اور اگلے سال جنوری کے آخری ہفتے تک رہے گی۔
اس کے تحت فلسطین کی تاریخ کے متعلق لوگوں کو معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔اس نمائش کا افتتاح وزیر ثقافت شیخ عبدالرحمن بن حمد الثانی نے کتارا کے ثقافتی مرکز میں کیا، اس میں فلسطین کے تمام خطوں کی نمائندگی کرنے والے 70 سے زائد ملبوسات اور تاریخی لوازمات شامل ہیں اور ان سے متعلق آرکائیول فوٹوز، پوسٹرز اور متعدد پینٹنگز ہیں، اور اس کے تحت ایسی فلمیں دکھائی جاتی ہیں جو فیشن سے متعلق فلسطینی ثقافتی ورثے پر روشنی ڈالتی ہیں۔اس کے آٹھ حصوں کے ذریعے فلسطینی زردوزی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالتی ہے جو صنف، کام، علامتوں، اجناس اور سماجی طبقات کے مسائل سے متعلق ہے۔
اس نمائش کے ذریعے ان تبدیلیوں کو پیش کیا گیا ہے جو کڑھائی کی تاریخ نے دیکھی ہے۔فلسطینی خواتین کی، مزاحمت کی علامت کے طور پر بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے جو اس کی تبدیلی سے گزر رہی ہے، اور اس کے عصری مرحلے کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ورلڈ کپ میں اگرچہ 32 ممالک کی ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں لیکن فلسطین 33ویں ٹیم کے طور پر قطر میں ہرجگہ موجود ہے اور جو بھی ورلڈ کپ کا تاج اپنے نام کرے گا، فلسطین بھی فاتح ہوگا۔
الریان کا ایجوکیشن سٹی سٹیڈیم اس وقت خوشی سے گونج اٹھا جب مراکش کی ٹیم نے چھ دسمبر کو رانڈ آف 16 میں سپین کے خلاف شاندار فتح کے بعد پچ پر فلسطینی پرچم بلند کیا۔اگرچہ مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں لیکن ان کے کھلاڑی اس سے قطع نظر فلسطینی کاز یا مقصد کی حمایت کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے لاکھوں فٹبال شائقین کے ہیرو بن گئے ہیں۔
مراکش کی ٹیم نے گروپ مرحلے میں کینیڈا کو شکست دینے کے بعد فلسطینی پرچم کے ساتھ جشن منایا تھا۔تاہم فیفا کے ضوابط کے مطابق پچ پر کھلاڑیوں کو بینرز، جھنڈے، فلائر دکھانا ممنوع ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔چنانچہ جب مراکش کی ٹیم نے جشن منایا تو پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حامیوں نے تالیاں بجا کر ان کے حوصلے کی داد دی۔ مراکش کے کھلاڑیوں کی فلسطینی پرچم تھامے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مراکش کی فتح پرعرب ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطین میں بھی جشن منایا گیا۔ غزہ کی پٹی کے ایک سپورٹس ہال میں ہزاروں افراد جمع تھے اور اس میچ کے دوران یہ سب مراکش کی حمایت کر رہے تھے۔رواں ورلڈ کپ میں مراکش کی ٹیم کو ایک بہت بڑی اپ سیٹ ٹیم کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، حالانکہ اسے سیمی فائنل میں فرانس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے جس طرح کا سیکنڈ ہاف میں کھیل پیش کیا اس نے فٹبال شائقین کا ایک بار پھر دل جیت لیا۔
اگرچہ مراکش کی ٹیم ہار گئی لیکن اس نے سیمی فائنل میں پہنچنے والی فٹ بال ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی افریقی اور عرب ٹیم بن کر تاریخ بھی رقم کی۔جس دن مراکش کی ٹیم جیتی اس دن سٹیڈیم سے لے کر قطر کی گلیوں تک ہر طرف سبز، سفید، سرخ اور سیاہ رنگوں میں فلسطینی پرچم نظر آ رہے تھے جو بتا رہے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ہے۔سٹیڈیم اور فیفا فین زون میں موجود شائقین نے بازو پر فلسطینی پرچم والی پٹیاں اور بریسلٹ پہن رکھے تھے اور ‘فری فلسطین’ یعنی فلسطین کو آزاد کرو کے نعرے لگائے تھے۔فلسطینی فٹ بال ٹیم کے ایک عہدیدار رجب نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ورلڈ کپ نے یہ جھوٹ ثابت کر دیا کہ حالیہ امن معاہدے کے بعد فلسطین کا مسئلہ دفن ہو گیا ہے۔
رجب فتح تحریک کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔رجب عالمی کپ کے دوران فلسطین کو ملنے والی حمایت کو اس معاہدے پر کے منھ پر ‘تماچہ’ سمجھتے ہیں۔فلسطینی اس معمول کے معاہدے کو غداری اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عرب لیگ کے دہائیوں پرانے موقف سے پیچھے ہٹنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔فلسطین سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کا کہنا ہے کہ ‘برسوں کی مایوسی کے بعد قطر ورلڈ کپ نے عرب دنیا میں فلسطینی عوام کا اعتماد بحال کیا ہے۔’رجب نے فلسطین کو ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرنے والی ’33ویں’ ٹیم قرار دیا۔غزہ پر حکمرانی کرنے والی شدت پسند تنظیم حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ عالمی کپ نے مسئلہ فلسطین کو عالمی دنیا کی توجہ دلانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ حماس کو قطر کی حمایت حاصل ہے۔
مراکش نژاد لاکھوں یہودی اسرائیل میں رہتے ہیں، جن میں سے کئی نے مراکش کی حیران کن فتح کا جشن بھی منایا۔اسرائیل کے معروف میڈیا ہاوسز کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ورلڈ کپ نے واضح کر دیا کہ عربوں کی ہمدردیاں کس طرف ہیں۔بائیں بازو کے ایک اخبار ہارتز نے لکھا کہ ‘سوشل میڈیا پر ورلڈ کپ کا اصل فاتح فلسطین تھا۔’فیفا نے فلسطینی فٹ بال ٹیم کو تسلیم کر لیا ہے لیکن وہ اب تک کبھی بھی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکی۔اس کے بعد سے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن اس نے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنایا ہے۔
گذشتہ سال غزہ کے شدت پسندوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان 11 روزہ جنگ میں 200 فلسطینی اور درجنوں اسرائیلی مارے گئے تھے۔اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں فوج تقریبا روزانہ کارروائی کرتی ہے۔ اس سال اب تک ان کارروائیوں میں 132 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ فلسطینیوں کے حملوں میں 19 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں شدت پسندوں کو نشانہ بناتا ہے تاہم ہلاک ہونے والوں میں فلسطینی بچے بھی شامل ہیں۔۔