جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی سے پہلے ملک میں دو اہم واقعات ہوئے تین اپریل 2016کو پاناما پیپرز آئے اور ان میں نواز شریف فیملی کی غیرملکی کمپنیاں اور جائیدادیں نکل آئیں عمران خان کے ہاتھ ایک اور کارڈ آ گیا اور انھوں نے نواز شریف کو چور ثابت کرنا شروع کر دیا۔
دوسرا واقعہ ڈان لیکس تھا یہ خبر6 اکتوبر 2016 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے شایع ہوئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ نے اسے سیکیورٹی بریچ قرار دے دیا تحقیقاتی کمیٹی بنی اور میاں نواز شریف نے پرویز رشید اور طارق فاطمی کے قلم دان واپس لے لیے تاہم حکومت نے دعوی کرنا شروع کر دیا یہ دونوں ایشوز جان بوجھ کر بنائے گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد 29 نومبر 2016کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی عنان سنبھال لی انھیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ صرف اور صرف میاں نواز شریف نے کیا تھا تاہم اس میں اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کا بھی کردار تھا مگر فیصلہ بہرحال میاں صاحب نے کیا اور اس کی وجہ صرف ایک تھی میاں صاحب جانتے تھے جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں یہ کسی بھی حال میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے بہرحال جنرل قمرجاوید باجوہ آئے اور انھیں ورثے میں پاناما کیس اور ڈان لیکس مل گئیں۔
ڈان لیکس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلاوجہ نزع کا باعث بنی ہوئی تھیں انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئے گی حکومت ذمے داروں کو فارغ کر دے گی اور یوں یہ ایشو ختم ہو جائے گا حکومت نے 29 اپریل 2017 کو انکوائری رپورٹ جاری کر دی اور تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس سے نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔
ادھر نوٹیفکیشن ری جیکٹڈ کی ٹویٹ آ گئی حکومت اس ٹویٹ کے بعد کم زور ہو گئی وزیراعظم کا چند دن بعد چین کا دورہ تھا اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی یوں افہام و تفہیم سے ڈان لیکس کا معاملہ نبٹ گیا 10مئی 2017 کو ٹویٹ واپس ہو گئی حکومت مضبوط ہو گئی لیکن ریٹائرڈ آرمی آفیسرز نے آرمی چیف پرتنقید شروع کر دی۔
ن لیگ نے بھی شیر زندہ باد کا بیانیہ شروع کر دیا یہ بیانیہ مریم نواز کے میڈیا سیل کا کارنامہ تھا اور یہ ان لوگوں کی بڑی سیاسی غلطی تھی یہ لوگ اگر خاموش ہو جاتے فتح کے شادیانے نہ بجاتے تو معاملہ آگے نہ بڑھتا لیکن ان کی غیرسنجیدہ حرکت نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دراڑ میں اضافہ کر دیا اور یہ بڑھتی چلی گئی۔
جنرل باجوہ کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف ان کے ساتھ ہمیشہ عزت سے پیش آئے اور ان کے ان سے تعلقات بہت اچھے تھے پاناما پیپرز میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا یہ انٹرنیشنل لیکس تھیں یہ ہوئیں اور عمران خان نے یہ کیچ پکڑ لیا وزیراعظم ہاس کی ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا آپ یہ معاملہ عدالت میں نہ لے کر جائیں اسے پارلیمنٹ میں ہی حل کر لیں۔
یہ ایشو اگر عدالت چلا گیا تو کوئی ادارہ اور شخص آپ کی مدد نہیں کر سکے گا وزیراعظم کا جواب تھا میرے بچے پراعتماد ہیں انھیں عدالت جانے دیں اللہ کرم کرے گا اور حکومت سپریم کورٹ چلی گئی اور یوں یہ معاملہ بگڑتا چلا گیا سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا وزیراعظم کو تحقیقات میں ایجنسیاں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ نہ مانے اور اس کے بعد معاملہ پھیلتا چلا گیا۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تعیناتی وزیراعظم کی خواہش پر ہوئی تھی جنرل نوید مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے رشتے دار تھے اور مریم صاحبہ کا خیال تھا ان کی وجہ سے ان کی فیملی کو پاناما کیس میں ریلیف ملے گا آرمی چیف نے جنرل نوید مختار کی تعیناتی کے وقت وزیراعظم سے کہا تھا سر فوج چین آف کمانڈ کا نام ہے۔
یہاں کوئی ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ اکتوبر 2021 میں وزیراعظم عمران خان کو بھی بتائی گئی تھی یہ واقعہ کب اور کیوں ہوا تھا یہ ہم آپ کو آیندہ قسطوں میں بتائیں گے سردست ہم واپس آتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے آرمی چیف سے دوسری پرسنل ریکویسٹ 2017 میں کی تھی میاں نواز شریف کو گلہ تھا مریم نواز سے جے آئی ٹی کے دو افسران کا رویہ ٹھیک نہیں ہے اس کے بعد دونوں آفیسرز کا رویہ بدل گیا اور مریم نواز نے دوبارہ ان کی شکایت نہیں کی اسٹیبلشمنٹ کے ذرایع بھی یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف نے ان دو ایشوز کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی کوئی پرسنل کام نہیں کہا تھا میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں پاناما کیس کے دوران میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا گیا تھا۔
آپ مستعفی ہو جائیں اور اپنی پارٹی کے کسی ایم این اے کو وزیراعظم بنا دیں یہ معاملہ ایک دو سال میں سیٹل ہو جائے گا اور آپ دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم بن جائیں گے مگر میاں نواز نہیں مانے تھے تاہم انھیں ڈس کوالی فکیشن کے بعد اگست 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا پڑ گیا یہ اگر یہ فیصلہ چند ماہ قبل کر لیتے تو شاید جیل تک نوبت نہ آتی۔
دوسری طرف بعض ذرایع یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف اگر ڈس کوالی فکیشن کے بعد ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ نہ بناتے یہ اگر خاموش بیٹھ جاتے اور ان کی پارٹی اپنی حکومتی مدت پوری کر کے الیکشن میں چلی جاتی تو شاید عمران خان وزیراعظم نہ بن پاتییہ حقیقت ہے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا۔
2018 کے الیکشنز میں جہانگیر ترین کے جہاز سے لے کر لوٹا سازی تک تمام ہتھکنڈے استعمال ہوئے عمران خان کو تاریخی سپورٹ دی گئی لیکن یہ اس کے باوجود الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کر سکے چناں چہ انھیں وزیراعظم بنانے کے لیے اتحادیوں کا بندوبست کرنا پڑ گیا اور یوں اگست 2018میں عمران وزیراعظم بن گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے آرمی چیف جولائی 2018سے قبل عمران خان سے کبھی نہیں ملے تھے یہ ان کے وزیراعظم بننے سے چند دن قبل ایک افسر کے ساتھ بنی گالا گئے اور عمران خان سے ملاقات کی۔ مستقبل کے وزیراعظم کی گفتگو زیادہ قابل فہم نہیں تھی ان کی زیادہ تر باتیں تخیلاتی تھیں ملاقات ختم ہو گئی اور یہ دونوں بنی گالا سے رخصت ہو گئے۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس