ایران او ر پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات سازگار اور تسلی بخش ہیں۔ سید محمد علی حسینی


اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے کہا ہے کہ  علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر تہران اور اسلام آباد کے درمیان باہمی تعاون دوسرے ممالک کیلئے دو طرفہ اور کثیرالجہتی رابطوں کیلئے ایک نمونہ ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسی میں  پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

ایرانی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی سفیر نے  ایران کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کے ساتھ دو طرقہ رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے  کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات سازگار اور تسلی بخش ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں ان تعلقات کووسیع اور مضبوط کرنے کے مختلف میدان موجود ہیں جن کو پاکستان کے تعاون اور صلاحتیوں سے تلاش کرنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ ایرانی سفیر نے نینشل ڈیفنس کالج میں خطاب کرتے ہوئے کہا  کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم محود علاقائی تعاون ہے اور ایران کی ، شنگھائی تعاون تنظیم، ڈی 8 ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم میں شمولیت کا مقصد یہی  ہے۔

سید محمدعلی حسینی نے پاکستانی افسروں، اسا تذہ اور کیڈٹوں سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک اور اہم محور پڑوسیوں اور خاص طور پر مشترک سرحدوں والے ہمسایوں کے ساتھ تعمیری اور فعال  تعلقات استوار کرنا ہے، پاکستان کی ایران کے ساتھ طویل مشترکہ سرحد ہے اور اور اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسی میں  پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آیت اللہ رئیسی کی حکومت کی خارجہ پالیسی ایک متوازن خارجہ پالیسی، متحرک سفارت کاری اور دانشمندانہ تعلقات کا قیام ہے۔ اس پالیسی میں مشرق، ایشیا کی طرف توجہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔  ایرانی سفیر نے کہا کہ ایران کی تیرہویں حکومتی ایک متوازن خارجہ پالیسی لے کر چل رہی ہے جس میں اسلامی دنیا، ایشیا،مشرقی ممالک اور ہمسایوں کو ایک خاص مقام دیا گیا ہے اور پاکستان کو اسلامی دنیا، ایشیا، مشرقی ممالک اور پڑوسی ممالک میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔انہوں نے ایران پاکستان اقتصادی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقتصاد ایران پاکستان کو قریب لانے کا اہم عنصر ہے اور اس میدان میں ایکو ایران پاکستان تعاون کا ایک مناسب میدان ہے۔

سید محمد علی حسینی نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی شمولیت اور مستقل رکنیت کیلئے اسلام آباد کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عسکری اور سیکورٹی کے میدان میں دونوں ممالک کو لاحق مشترکہ خطرات نے مشترکہ اقدامات کا تقاضا پیدا کیا ہے اور اس تناظر میں دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔ایرانی سفیر نے مزید کہا کہ ایران پر یک طرفہ عائد ظالمانہ پابندیوں کی اس کی دیگر ممالک سے تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئیہیں اور یہ پابندیاں دوسرے ممالک کی ایران کیساتھ تجارت کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود ہمارے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات موجود ہیں اوریہ ایران کے ساتھ تجارت نہ کرنے کا بہانہ نہیں ہوسکتا۔ ہمارے پاس مختلف میکانزم موجود ہیں جن کے استعمال سے پابندیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو مطلوبہ سطح تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی بحرانوں کے حل اور مثال کے طور پر افغانستان کی صورتحال کیحوالے سے مشاورت اور تعاون دنونوں ممالک کے باہمی تعاون کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ایران نے پاکستان کی جانب سے افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزراے خارجہ کونسل کی تشکیل کے اقدام کا مثبت جواب دیا ہے اور اس کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں اور دوسرا تہران میں ہوا اور اسی طرح دونوں ممالک کے نمائندے افغانستان میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے اور باہمی مشاورت کرتے رہتے ہیں۔سید محمد علی حسینی نے نیشنل دیفنس کالج اسلام آباد میں اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ ایران اور پاکستان کو افغانستان میں ایک جسیے مسائل اورمشکلات کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، منشیات اور پناہو گزینوں کے مسائل شامل ہیں اور مسائل کے حل کیلئے دونوں ممالک کے درمیان رابطے اور مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔