کیسا عشق ؟؟۔۔۔۔تحریر شکیل احمد ترابی


عشق محمد ۖ کیا ہے۔؟
اسے سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔کوئی عاشق مصطفےٰ بنا۔کان میں آواز پڑی جو ﷲ کی راہ میں مارا جائے گاوہ جنتوں کا مکین ہوگا۔کھجور ابھی منہ میں ڈالی تھی پوری ابھی کھائی نہ تھی اور زمین پر دے ماری کہ جنت پکار رہی ہے تو پھر دیرکاہے کی۔
کسی کی شادی کی پہلی رات تھی۔جہاد کی آواز کان پڑی اور غسل جنابت کی پرواہ کئے بغیر معرکہ میں کود کر جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
آپ ۖ کا شہداء کی لاشوں پر سے گزر ہوا تو صحابہ کو کہا کہ اس نے ﷲ کی راہ میں جان دینے کو ترجیح دی اور اب فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔
ماں باپ کی خدمت پر مامور دور دراز وادی قرن میں بیٹھی ہستی کو معلوم ہوتا ہے احد کے غزوہ میں نبی مہربان ۖ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔معلوم نہ تھا کونسا دانت شہید ہوا اور اس نے ایک ایک کرکے اپنے سب دانت توڑ(شہید)دئیے۔کیسا عشق تھا کہ اویس قرنی آپ ۖ کو مل نہ سکے مگر صحابی کا درجہ پایا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عمل کے بل بوتے پر کائنات تسخیر کر لی تھی۔زبانی عشق کے دعوے نہ کرتے تھے۔
خرافات کا شکار ہم لوگ ،جوہری قوت بننے کے باوجود ناکامیاں جن کے گلے کا ہار بن گئیں۔
ریاست مدینہ کے نام لیوا ہمارے حاکم جناب عمران خان نے ماہ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی عشرہ رحمت العالمین ۖ منانے کا اعلان ہی نہ کیا بلکہ رحمت العالمین اتھارٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔حزب اختلاف والے اسے جناب عمران کی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور مسائل سے توجہ ہٹانا قرار دے رہے ہیں ۔

نیتوں بارے تو صرف رب جانتا کہ کس کی کیا ہے مگر انسان باالخصوص حکمران اپنے اقدامات سے پرکھے جاتے ہیں۔اس عشرہ و اتھارٹی کے اعلان کے بعد شریعت محمدی کے نفاذ کی جانب ہمیں کوئی قدم اٹھتا نظر نہ آیا۔بنی گالہ پیر خانہ کو برقی قمقوں سے سجا دیا گیا۔(ہم بدگمانی نہیں کرینگے کہ بنی گالہ قلعہ کی خاردار باڑ کی طرح میلاد پر اٹھنے والے اخراجات بھی سرکاری خزانے سے ادا ہوئے ہونگے۔)
جناب عمران خان کے نزدیک شریعت اور عشق محمدی ۖ شاید یہ ہے کہ دروبام سجا دئیے جائیں اور ان کی تصاویر وہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لگا کر دنیا کو بتا دیں کہ ایسے ہوتے ہیں حاکم جن کی رگ و پے میں عشق دوڑتا ہے۔

افسوس عمران خان وزیر اعظم پاکستان صد افسوس۔آپ کے نزدیک کیا یہ دین کا معیار ہے اور اسے عشق مصطفٰے کہتے ہیں۔؟؟
ضعیف العقیدہ نہیں تاریخ اسلام کا مطالعہ کسی اچھے استاد کیساتھ بیٹھ کر پھر کیجیے۔
ہمارے وزیراعظم صاحب کچھ دن قبل سیدنا عمر و خالد بن ولید رضوان اللہ تعالی اجمٰعین کا ذکر فرمارہے تھے۔
مغرب کے حوالے دینے کی بجائے اچھا ہے تاریخ اسلام کی بات کی جائے۔مگرکبھی کبھی غور فرمالیا کریں کہ شریعت محمدی ۖدرحقیقت ہے کیا۔؟
آپ ۖ پر اترے کلام میں تو کہا گیا کہ
فتومِنون بِبعضِ الکِتابِ وتکفرون بِبعض فما جزا من یفعل ذلک ِ مِنم اِلا خِزی فِی الحیاةِ الدنیا ویوم القِیامةِ یردون اِلی اشدِ العذابِ وما اللہ بِغافِل عما تعملون
کیا تم کتاب کے ایک حصہ پرایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، پھرجو تم میں سے ایسا کرے اس کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں ذلیل ہو اور قیامت کے دن بھی سخت عذاب میں دھکیلے جائیں اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔(البقرہ)
پھر کہا گیا کہ
یایہا الذِین امنوا لِم تقولون ما لا تفعلون ۔(سورہ صف)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔
دین اس بات کا نام نہیں کہ صرف آپ ۖ کا میلاد منا لیا جائے۔آپ کے خلفا راشدین کا تذکرہ کرکے واہ واہ یا سیاسی حمایت حاصل کر لی جائے۔
آپ نے جناب خالد بن ولید کی جگہ نئے سپہ سالار کی تقرری کی بات کی۔یقینا آپ کو معلوم ہوگا کہ جناب خالدبن ولید کی معزولی کسی جرم نہیں لوگوں کی اس سوچ کو روکنے کیلئے کی گئی تھی کہ خالد جہاں ہوتے وہ معرکہ جیت جاتے،جہاں وہ شامل نہیں وہ معرکہ مسلمان ہار جاتے ہیں ۔
جبکہ مسلمان کا عقیدہ تو یہ ہے کہ فتح و کامرانی ﷲ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے۔جن کی بات آپ کررہے ان کے اقدامات کا عشر عشیر بھی آپ کرتے ہیں۔؟
سپہ سالار تو دور کی بات آپ میں اتنی اخلاقی جرات بھی ہے کہ اس محتسب ہی کو بدل دیتے جس کی بے حیائی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔؟
کس عمر کی بات کرتے ہیں جناب ؟ جسے اس وقت تک خطاب کا موقع نہیں دیا گیا جب تک کہ وہ کرتہ کے کپڑے کا حساب نہ دے لے۔؟
آپ کے توشہ خانہ اور تحفوں کا کیا معاملہ ہے۔؟ آپ مافوق الفطرت ہیں جو اس بارے جواب دینے سے قاصر ہیں۔؟ نہیں جناب لوگوں کے لئے کچھ اور اپنے لئے کچھ۔یہ دہرا معیار نہیں چلے گا۔
ہمارے ماں باپ قربان جائیں آپ ۖ کے ستاروں پر،جناب وزیر اعظم آپ نے نہیں پڑھا کہ گورنر بصرہ سیدنا ابو موسی اشعری جب مدینہ میں دربار عمرفاروق میں کہہ رہے تھے کہ یہ مال بیت المال کا اور یہ مجھے تحفے ملے۔
ابن خطاب نے درہ اٹھا لیا اور کہاکہ ابو موسی تو مجھے اور میں تجھے جانتا ہوں۔یہ سب عزت اور شان وشوکت ہمیں اسلام سے حاصل ہوئی ہے۔ایسا نہ ہوتا تو جس ماں نے تجھے جنم دیا تھا تو اس کی بکریاں چرا رہا ہوتا۔
سوچ سمجھ کر بات کیجئے جناب عمران،کفر کے نظام کو چلا کر آپ نام کن کا لیتے ہیں۔؟
جو حکمران تحفوں کا حساب دینے سے عاری وقاصر وہ کسی ترین و بدترین کا محاسبہ کرسکتا ہے۔؟
نہیں ہرگز نہیں جناب۔
سود کوﷲ اور رسول سے جنگ قرار دیا گیا۔آپ کی معیشت اسلامی نظام پر چل رہی ہے۔؟
آپ کے ان اقدامات پر ہم دوش کسی پیر و پیرنی کو کیوں دیں۔؟
اس رعیت کے نگران آپ ہیں اس لئے سوال ہم آپ سے کرنے کی جسارت کرینگے۔حضور زندگی کی مہلت بارے نہ آپ کے اقتدار کی پائیداری کا معلوم۔رب کی جانب بڑھئیے تو سہی۔شریعت محمدی کی جانب کوئی ایک قدم محض رب کی رضا کے لئے اٹھائیے تو سہی۔
وہ دوڑ کر آپ کی مدد و استعانت کے لئے آئے گا۔ایسے خزانوں سے آپ کی مددکرے گاجن کا آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔
دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے پرخلوص اور ٹھوس اقدامات کیجئے۔ایسا کرکے ہی آپ ﷲ کی رضا اور رسول سے عشق ثابت کر سکتے ہیں۔
آپ کے ظاہری اور نمود و نمائش پر مبنی اقدامات سے تو لگتا ہے کہ جناب عنایت علی خان نے آپ کو سامنے رکھتے ہوئے ہی یہ نعتیہ اشعار کہے تھے کہ

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا ، اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھی
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا