’’اکثریت مسلم ملکوں میں ہی بے نوا کیوں‘‘…محمود شام

’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں۔ ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے۔ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور یہی مثال انجیل میں ہے۔ اس کھیتی کی مثل جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہو گیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے’’(القرآن الکریم۔ سورہ الفتح آیت 29.تفسیر احسن البیان اردو)

الوداع رحمتوں برکتوں مغفرتوں والے رمضان المبارک !اللہ تبارک و تعالیٰ ہر لمحہ کتنا مہربان رہا۔ زر کی ہوس میں مبتلا بزرگ نوجوان بھی اس عرصے میں اللہ کے فضل رضامندی کی جستجو میں رہے۔ مسجدیں روشن اور آباد رہیں بچے بھی اس مبارک مہینے میں عبادتوں میں مصروف رہے وہ روزے رکھتے تھے ان کی پیشانیاں دمکتی تھیں تو ماؤں بہنوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ آپس میں خاندان کتنے جڑے جڑے رہے وہ جو حصول رزق میں کئی کئی سمندر پار جا بیٹھے ہیں ان سے آڈیو ویڈیو رابطے بڑھتے رہے۔کیسے کرم فرما دن تھے۔ کتنی نیکی بھری راتیں تھیں جو استطاعت رکھتے تھے وہ مکے مدینے جا پہنچے۔ اللہ کے حضور گڑ گڑائے۔ فلسطین کے مظلوموں کیلئے دعائیں کیں۔ کشمیر کے مجبوروں کیلئے خدائے بزرگ و برتر سے آزادی مانگی اور جو مسلمان ممالک آزاد ہوتے ہوئے بھی غیروں کے غلاموں کے تسلط میں ہیں ان کیلئے بھی اس قدیر و کبیر سے التجا کی کہ انہیں نیک دل خوف خدا رکھنے والے حکمران عطا کر۔ تمام اسلامی ملکوں کے شہریوں کو وہ سارے حقوق اور اختیارات عطا کر جو تو نے اپنے قرب والے بندوں کیلئے مخصوص رکھے ہیں۔

آپ میں سے جس جس نے یہ عشرے خوف خدا اور حب انسان میں گزارے ہیں انہیں عید مبارک۔ عید کےدن انہیں ضرور یاد رکھیں جو اس برکتوں والے مہینے میں شہید کر دیے گئے۔ ان ماؤں بہنوں کیلئے آج دل سے دعائیں مانگیں جن کے بیٹے بھائی لاپتہ ہیں جو ان کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ انبیاء کی سرزمین کو بھی ذہن میں رکھیں جہاں غم کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں جہاں رمضان کے گزشتہ مہینے سے دوسرے رمضان تک ایک سال میں کئی کئی ہزار بچے مائیں نوجوان بزرگ شہید کر دیے گئے اور سارے مسلمان ممالک حکمران اپنے اپنے معمولات میں مشغول رہے ۔کسی نے مسلمانوں پر قہر بننے والے اسرائیل اور انکے سرپرستوں کو نہیں للکارا۔

وہ مسلمان ممالک جن کے حکمرانوں کو کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہونا چاہیے تھا وہاں انہیں کافروں پر نرم آپس میں سخت دیکھا گیا۔ غیر مسلموں سے معاہدے ہوتے رہے۔ مسلمانوں کے گھر توڑے گئے۔ نوجوانوں کو، بہنوں کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ خوف کی فضا کو تسلسل دیا گیا۔ باقاعدہ پابندیوں اور پالیسیوں کے ذریعے تذبذب اور بے یقینی عام کی گئی ۔یہ نہ سوچا گیا کہ ان ضابطوں سے انسان کی تخلیقی تحقیقی صلاحیتیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ قومیں صراط مستقیم سے بھٹک جاتی ہیں۔ اکثریت شکی مزاج ہو جاتی ہے۔ اس تک جب حقائق نہیں پہنچتے تو وہ غلط اطلاعات کو درست ماننے لگتی ہے۔ جب پرنٹ بھی بے خبر رکھنے پر مجبور ہو۔ ہر لحظہ خبریں پھیلانے کے دعوے دار برق رفتار چینل بھی اطلاعات سے گریز کریں۔ وہاں آپ کے ہم وطنوں پر کیا گزرتی ہے۔ جہاں یونیورسٹیاں درسگاہیں تحقیقی ادارے اپنے گرد و پیش کی بد حالی کے اسباب کسی خوف کے باعث تلاش نہ کریں پھر وہ اسباب دور کیسے ہوں گے اور آئندہ کا روڈ میپ ایک اعتماد کے ساتھ کون مرتب کرے گا؟

تاریخ دنیا کے ایسے گوشوں میں دانتوں میں انگلیاں دبائے رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ تعجب اور تاسف تاریخ کو ان طبقوں پر ہوتا ہے جن کے پاس بے حساب اختیار ہے مینڈیٹ سے ملا ہو یا زور جبر سے۔ وہ جب اپنے خطے کےاپنی اکثریت کے مفاد میں سوچنا چھوڑ دیں اور جن خطوں کو قدرت نے بکثرت بحری بری فضائی وسائل عطا کیے ہوں سونا تانبہ قیمتی دھاتیں انمول پتھر تیل گیس زرخیز سرزمین جفا کش افراد کی اکثریت ۔ ارباب اختیار ان معدنی قدرتی انسانی وسائل کے استعمال کے بجائے اغیار کے، کفار کے دروازوں پر سائل بن کر کھڑے ہوں تو وہاں رحمتیں کیوں نہ روٹھیں برکتیں کیوں نہ دور دور ہوں.کیا ان ارباب اختیار میں اہلیت نہیں ہے خود کفالت کی خواہش نہیں ہے۔

اہل فکر جب دنیا کے نقشے پر نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور آخری دین کے ماننے والے ہی دنیاوی اضطراب میں نظر آتے ہیں۔ کفار نے، یہود و نصاریٰ نے تو اپنے ہم وطنوں کیلئے ایسے نظام ایسے سسٹم وضع کر لیے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے جہاں ہر ایک فرد کی اہمیت ہے اس کی آزادی اظہار کا، روزگار کے اختیار کا، اس کی خوراک، اس کے بچوں اور اہل خانہ کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ جہاں سرکاری ملازمین واقعی اپنے آپ کو لوگوں کا خادم سمجھتے ہیں۔ جہاں قانون کا نفاذ یکساں ہے ۔کسی کو چھوٹ نہیں ہے کسی کو لوٹ کی اجازت نہیں ہے ایک قانونی سسٹم بن چکا ہے سب اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ گورنر جنرل، بادشاہ، وزیر اعظم، کمانڈر ان چیف، پولیس وہاں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی زیادہ سرمایہ دار زیادہ با اثر یا کسی قبیلے کا سردار ہونے کی وجہ سےسسٹم سے ماورا ہو جائے گا۔سب سے زیادہ افر تفری دہشت گردی اور قانون شکنی ان ممالک میں ہی کیوں ہے جہاں کلمہ طیبہ کے ماننے والے اکثریت میں ہیں ۔تاریخ بھی سوال کرتی ہے اور جغرافیہ بھی یہی پوچھتا ہے۔ او آئی سی کے مختلف محکموں کے سربراہ اور ماہرین سالانہ میٹنگوں میں ملتے ہیں تو وہ اپنے اپنے ملکوں میں ایسا سسٹم بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں۔ جب امریکہ اور یورپی ممالک مسلمان ملکوں حکمرانوں پر پابندیوں کے قوانین بنا سکتے ہیں تو اسلامی ممالک کی تنظیم اپنے رکن ملکوں میں رواداری محبت یگانگت کیلئے قوانین کیوں نہیں بنا سکتی اور حکمرانوں کا احتساب کیوں نہیں کر سکتی ،وہ کافروں پہ سخت اور آپس میں رحم دلی کی مثال حکمرانوں کو کیوں نہیں بنا سکتی۔ کونپلیں تناور درخت بن سکتی ہیں۔آج اتوار ہے افطار پر اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہووں دامادوں کے ساتھ بیٹھ کر آئیے اپنا محاسبہ کریں اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔۔۔۔

بشکریہ روزنامہ جنگ