یار فکر نہ کر : تحریر محمد اظہر حفیظ


میرے ابا جی سب کا ہی بہت خیال رکھتے تھے ۔ پر ہمارا خاص خیال رکھتے تھے ۔ نہلا کر ابا جی میرے سر پر تیل لگاتےاور پھر میری ٹھوڈی پکڑ کنگی کرتے مانگ نکالتے پھر کہتے چوہدری صاحب (میری والدہ کو کہتے تھے) صاحب تے تیار ہوگیا۔ صاف ستھرا رہنا روزانہ کپڑے بدلنا ان کو بہت پسند تھا۔ اسی طرح وہ ہمیں بھی روزانہ کپڑے بدلواتے تھے۔ اب یہ عادت انھی کی دی ہوئی ہے روزانہ نہانہ خوشبو لگانا اور کپڑے بدلنا صاف ستھرا رہنا۔
شدید غصے کے مالک تھے پر اس سے زیادہ پیار کرتے تھے مجھے یاد ہے جب بھی میری غلطی پر مجھے مار پڑی اس کے بعد مجھے باہر گھومانے لے جاتے باہر کھانا کھلاتے ساتھ سمجھاتے یار صاحب ایسے کام کیوں کرتا ہے جس سے تجھے مار پڑتی ہے۔ ایسے کام نہ کیا کر۔ بکرے کا گوشت پسند کرتے تھے۔ اور دیسی مرغ کا گوشت فارمی مرغی کے خلاف تھے کہ جو خود اتنی ڈھیلی ہے اس میں کیا طاقت ہوگی۔ کثرت سے گوشت لیکر آتے اور زیادہ مقدار میں لاتے کھانسی ہلکی سی بھی آجاتی تو فورا دیسی مرغے کا گوشت آجاتا امی جی کو کہتے چوہدری صاحب دیسی مرغے دا شوربہ بنا کے صاحب نوں پانی دی تھاں دئیو انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔ کھانے اور پھل وہ ہمیشہ کوالٹی کے پسند کرتے تھے۔ گاؤں سے جب شہر آیا تو انھوں نے مجھے سائیکل لیکر دی میرا صاحب سکول سائیکل پر جایا کر۔کالج میں پہلا دن تھا تو مجھے نئی موٹر سائیکل لیکر دی کہنے لگے یار صاحب اس راستے سے جانا جس پر ویگن اور بسیں نہ ہوں۔ یار صاحب کالج کے لڑکے بسوں والوں سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں آپ کا ان سے لینا دینا کچھ نہیں ہے تو آپ نے ایسا نہیں کرنا ۔ مجھے جی ابا جی کے علاؤہ کچھ کہنا نہیں آتا تھا۔ آئی کام کرنے کے بعد میں بی کام میں داخل ہوگیا۔والدہ سوچتی تھیں کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنے گا۔ میں نے ایک دن والد صاحب کو بتایا اباجی میں نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں داخلہ لینا ہے کہنے لگے کیوں صاحب۔ اباجی جی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ساری زندگی لوگوں کے پیسوں اور فراڈ کا حساب کتاب لگاتے رہتے ہیں ۔ یہ میرے سے نہیں ہوگا۔ میرے لیے تو میرا اپنا حساب دینا ہی مشکل ہے۔چل میرا صاحب اور ابا جی مجھے لاہور بھائی منظور اور باجی امتیاز کے پاس چھوڑ آئے اور میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں سید اختر صاحب اور استاد زاھد الحق کی زیرنگرانی ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگا۔ الحمدللہ میں ٹیسٹ پاس کرکے داخل ہوگیا ۔ میرے ابا جی نے مجھے کار لیکر دی جو میں لاہور لیکر نہیں گیا موٹر سائیکل ہی استعمال کرتا رہا کہ خرچہ بہت بڑھ جائے گا۔ آن لائن کا زمانہ نہیں تھا تو اباجی باجی امتیاز کو پیسے دے آتے اور میں ان سے لے لیتا تھا۔باجی امتیاز میری خالہ زاد بہن ہیں اور میری ماں جیسی ہیں ہمیشہ میری ماں کی طرح خیال رکھا اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا فرمائے آمین ۔ میں ان کے احسانات اور محبت کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اور ماں کے احسانات کون واپس کرسکتا ہے۔ انکے میاں بھائی منظور اباجی کے کزن تھے ہم انکو چچا کی بجائے بھائی منظور ہی کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انکو اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین بہت خیال رکھتے تھے ۔ میں اگر کسی ویک اینڈ پر باجی کے گھر نا جاتا تو بھائی منظور خود لینے ہاسٹل آجاتے تھے۔ یار کی گل اے آج آیا نہیں کمال پیار کرنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کامل مغفرت فرمائے آمین ۔
کبھی بھی اباجی نے پیسے کم نہیں ہونے دئیے۔ جب بھی باجی کے گھر جاتا تو باجی خود کہتیں بیٹے کتنے پیسے چاہیں میں جتنے کہتا باجی پیسے دے دیتیں۔ مجھے نہیں پتہ ابا جی کتنے پیسے وہاں باجی پاس جمع رکھتے تھے۔ ایک دن کیمرہ لینا تھا میں نے کہا ابا جی کیمرہ لینا ہے کہنے لگے یار صاحب اپنی باجی سے پیسے لے لو۔ ابا جی مہنگا ہے آٹھ یا نو ہزار کا آئے گا یار کوئی گل نئیں باجی سے لے لو۔ میں باجی پاس گیا باجی نو ہزار چاہیں باجی نے دے دئیے ۔ بیٹے خالو جی کو فون نا کیا کر مجھے بتایا کر تمھارے لیے بہت سے پیسے خالو جی میرے پاس رکھتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کبھی بھی زندگی میں کوئی کمی ہونے دی ہو۔ راولپنڈی جب آئے تو کچھ وقت کے بعد ائرکنڈیشن گھر میں لگ گیا تھا 1986 میں جب اپنا گھر بنا تو ہر کمرے میں ائرکنڈیشن لگوا دیا۔ آج بھی گھر میں ماشاءاللہ سات ائرکنڈیشن اباجی کی یاد تازہ کرواتے ہیں ۔ ابا جی کی محبت اور شفقت دیکھ کر میرا اللہ پر ہمیشہ یقین پختہ سے پختہ ہوتا گیا۔ کہ والد صاحب اتنا خیال رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کتنا رکھتے ہوں گے۔ جب والد صاحب نے ساری زندگی ٹھنڈ میں رکھا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے بہتر حالات میں رکھیں گے انشاء اللہ ۔
نیشنل کالج آف آرٹس کی پڑھائی بہت مہنگی تھی ۔ اوپر سے فوٹوگرافی کا شوق ابا جی نے کبھی اف نہ کہا۔اللہ تعالیٰ انکو جزائے خیر دے آمین ۔ جب تک وہ ساتھ رہے ہمیں ٹھنڈ میں ہی رکھا کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ زندگی کتنی مشکل ہے۔ مجھے ہمیشہ احساس رہا کہ اتنی محبت ممکن نہیں جتنی وہ ہم سے کرگئے۔ میرے اباجی کو یقین تھا کہ میرا بیٹا ایک دن صاحب بنے گا ۔ اس لیے وہ مجھے ہمیشہ صاحب کہہ کر ہی بلاتے تھے۔ جب بہت خوش ہوتے تو مجھے گلے لگا کر رونے لگ جاتے یار صاحب تو نے خوش کردیا۔ کوئی میری امی جی کے سامنے بھی میری تعریف کرتا تو امی جی بھی رو دیتیں تھیں۔ میرے پاس جب بھی پیسے نہیں ہوتے تو میں پینٹ کوٹ باقاعدگی سے پہنتا ہوں پسند مجھے جینز اور شرٹ ہے۔ جب بھی پینٹ کوٹ پہنتا تھا وہ چپکے سے میرے پرس میں دس یا پندرہ ہزار رکھ جاتے۔ وہ سمجھ جاتے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔الحمدللہ جب بھی ابا جی نے حکم کیا میں نے بھی تعمیل کی۔میری بیوی انکی خزانچی تھی ۔ وہ ابا جی کے اشارے سمجھ جاتی تھی جی ابا جی کہتی اور تعمیل کر دیتی میں ہمیشہ اس کے پاس پیسے رکھواتا ہوں۔ ابا جی ہمیشہ کہتے میری یہ بیٹی بہت اچھی ہے۔ میں ہنستا تھا کہ یار تمھیں کیسے پتہ چلتا ہے اباجی نے کتنے پیسے کہے ہیں وہ ہنستے ہوئے کہتی یہ میرا اور میرے ابا جی کا معاملہ ہے آپ کو کیوں بتاؤں ۔ میری شادی والدین کی پسند سے ہوئی اور انکا یہ بھی میرے اوپر بہت بڑا احسان ہے کہ اتنی وفا شعار اور شاندار خاتون میری زندگی میں لیکر آئے۔ اپنی پوتیوں سے بھی ابا جی کا خاص پیار تھا ۔ میں کبھی بیٹیوں سے ناراض ہو جاتا تو رونے لگ جاتے کہتے یار صاحب بیٹیوں سے ناراض نہیں ہوتے چل صلح کرلے معاف کردے۔
ابا جی کا صاحب اب صاحب تو بن گیا ہے سارا زمانہ صاحب کہتا ہے پر جن کا خواب تھا کہ میں صاحب بنوں۔ وہ اب میرے پاس نہیں ہیں ۔ سب احباب سے میرے والدین کیلئے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے ۔ دسویں عید انکے بغیر آرہی ہے وہ سب سے پہلے مجھے اٹھاتے تھے یار صاحب جلدی سے تیار ہونا عید کی نماز کیلئے جانا ہے اور ہم اکٹھے نماز عید کیلئے جاتے تھے۔ ابا جی یار بہت یاد آندے او ۔ قسمیں باپ کے ہوتے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہتے تھے ۔ یار تو فکر نہ کرمیں تیرے نال آں ۔ اب کون کہے؟