بلوچستان، کیا جمال تھا کہ دیکھ آئینہ مچل اٹھا : تحریر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام


اکتوبر 1999 کی شام تھی، میں ایک ماہر سیاسیات کے ساتھ مارگلہ پہاڑی پر تھا، وہ بولا: “ملک جتنا مضبوط آج ہے، کبھی اتنا نہیں رہا. دیکھ لو، بلوچ حاصل بزنجو اور پشتون ہوتی صاحب سیاسی اختلافات کے باوجود وفاق اور وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہیں”. کیا شباب تھا کہ پھول پھول پیار کر اٹھا. اور پھر 12 اکتوبر آگیا. تلہٹی میں حال کے دل فریب منظر پر نگاہ پڑی تو پچھواڑے میں جھانکنا بھی بھا گیا۔ کیا جمال تھا کہ دیکھ آئینہ مچل اٹھا۔ ادھر گوادر کا سناٹا تو ادھر مسقط کے بدو۔ اس طرف زمین اور آسماں ادھر اٹھا۔ ابا نے کبھی بتایا تھا کہ موتی صدف سے ملتے ہیں اور صدفی سمندر عربی بدوؤں کے پاس ہے، مسقط و عمان۔ نون نے بدوؤں سے گوادر کا بگولے بھرا ساحل خریدا کر یہ موتی ہماری گود میں ڈال دیا۔

ایک تو آپ کے روئیں روئیں میں سیاست رچی بسی ہے۔ بتایا تو تھا کہ وہ “ن” نہیں، ملک فیروز خان نون تھا جس نے سلطان مسقط سے گوادر خریدا تھا۔ ہاں تو ماضی کی تاکا جھانکی میں میری نگاہ گھاٹی کی اگلی چوٹی پرجا پڑی جو ہری پور میں تھی۔ اس کی تلہٹی میں الحمدللہ نہ جھانک سکا جہاں راکھشش کی بستی ریحانہ تھی، اختر شیرانی والی ریحانہ نہیں۔ راکھشش نے موتی والے نون کو صرف ایک ماہ بعد نکال باہر کر دیا۔ گیت اشک بن گئے چھند ہو دفن گئے۔ دیکھیے آپ اپنی کلموئی انگریزی بولتے بولتے مجھ پر لاطینی اور جرمن کی تعلی بھری پھٹکیاں برساتے ہیں تو چھند پر چہرہ کملا کیوں گیا آپ کا؟

کہاں چلے؟ گوپال داس نیرج کی چتا جلے 7 سال ہو گئے. میں بتائے دیتا ہوں۔ ہندی گیت یا اشلوک چھند بھی کہلاتا ہے۔ بندہ پروری کہ آپ نے درست قرار دیا میں واقعی پتے پھننگ نہیں جڑ کا متلاشی رہتا ہوں۔ ہندی کی چندی یہی کہ آج میں آپ جس آواگون کے گرداب میں ہیں اس کی نیو ہری پور کے اسی راکھشش نے رکھی تھی۔ اس کی پیاس نون حکومت کے خون سے نہ بجھی تو وہ ایک اور ن کھا گیا۔ لوح محفوظ پر کنندہ صحف مطہرہ کو ضامن بنا کر اس نے نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارا پھر اسے بھی چٹ کر گیا۔

درست کہا، یہ لذیذ حکایات خونچکاں مورخین کا کھا جا ہیں اور میں ٹھہرا دال ساگ والا۔ بجا ارشاد، جڑ ہی کا متلاشی ہوں۔ فلسفہ کھاتے کھاتے آپ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبنے کے انتظار میں بال سفید کر بیٹھے اور میں عامی کامی اس سوچ میں کہ شہید ملت یا شاید اس سے پہلے میرے گلے میں پڑا پیتل کا پینٹاگونی آہنی پھندا ٹوٹا یا نہیں۔ پیتل کے آہنی پھندے پر بھلے قہقہہ بار ہو جائیے۔ فلسفے اور عامی کامی میں کیا نسبت, لیکن بضد رہوں گا کہ آہنی پھندا پیتل ہی کا ہے۔ کہاں ہے سی پیک؟ آپ چونک کیوں گئے؟ ہاتھوں کی لگی گرہیں دانتوں سے نوچنا ہوں گی۔ فاتح جلال آباد اور گوجر خان کے نجومی کا خونی پراجیکٹ لپیٹنے کی قیمت پر سی پیک نقطہ انجماد پر بھی رہا تو غم نہیں۔ ٹوٹتا، پگھلتا پھندا دیمک زدہ ہو چلا تھا کہ 2017 میں پینٹاگونی ریلے ریس اسٹک نئے پیتل زدگان اور ہتھوڑا گروپ کو مل گئی۔ کچھ غم نہیں، سڑکیں بندرگاہیں بنانے میں دیر کیا لگتی ہے۔ مسئلہ تو اس تہذیبی وجود کی ٹوٹی کمر کا ہے جو خونی پراجیکٹ کی نذر ہو چکی تھی۔

کون میاں طفیل محمد؟ جماعت اسلامی والے؟ ہاں ہاں 1969 میں بابے نے بڑا واویلا کیا کہ ایف سی کالج کا امریکی پروفیسر عرصے سے طلبہ کی ذہن سازی کررہا ہے، طلبہ کی افتاد طبع، کوائف اور میلانات کی فہرستیں بنا رکھی ہیں، اسے نکالا جائے۔ بات سنے بغیر آپ نے پھر سوال جڑ دیا۔ مجھ اکیلے تنہا اور مطلقا اجنبی نے 2004 میں گوادر کے کپر، پشوکان اور جیونی کے صحراؤں میں زندگی کی چند حسین ترین راتیں مطلقا اجنبی بلوچوں کے ساتھ گزاریں۔ دنیا کا تو پتا نہیں لیکن اپنی چند دنیاؤں کا یہی بیان ہے کہ منڈا ناؤ کے ساحلوں پر مقیم فلپائنیوں کے بعد ان پڑھ بلوچ دنیا کے مہذب ترین لوگ ہیں۔ تھام کر جگر اٹھا کہ جو ملا نظر اٹھا۔ شاہ کالی صحرائی رات کو بدون سنگ میل یا علامت کے سینکڑوں میل معلوم نہیں کیسے گاڑی چلانے والا حسن کس حال میں اور کہاں ہے۔ “حسن! میں اسلام آباد میں تمہارے کس کام آ سکتا ہوں، بچوں کی پڑھائی، ملازمت، تمہارے آنے پر قیام، بتاؤ” سر جھکا کر بولا: “صاحب! مجھ ان پڑھ نے وہاں کیا کرنا ہے؟ درخواست یہی ہے کہ پھر سے آ کر خدمت کا موقع دیں”. مکرانی بگولوں میں میری غواصی زیادہ نہیں رہی پر سنگلاخ چٹانوں اور چٹیل پہاڑوں پر بکھرے لاکھوں لولائے لالا میں سے میں نے حسن جیسے چند ایک سمیٹ ہی لیے۔

ایک دن مگر یہاں ایسی کچھ ہوا چلی، لٹ گئی کلی کلی کہ گھٹ گئی گلی گلی۔ نیرج تو ہمارے احوال آمدہ کی پیش بینی کر گزرا۔ میاں طفیل محمد والے اسی پروفیسر کا پروردہ پرویز مشرف سر پر پینٹاگونی کلبوط دوسرا امریکی تعلیم کے تیزاب میں ڈوبی اس کی خودی۔ عشروں بعد اپنی تاج پوشی یا سالگرہ پر وہی امریکی پروفیسر راکھشش کے سامنے بیٹھا تھا۔ ہاں تو یہ دونوں عناصر، نخوت بھرے پیالے میں پرویز مشرف یا راکھشش کلاں کہلائے۔ 80 سالہ بڈھے بلوچ پر ریاستی طاقت جھونک کر بولا: “ایسا وار کروں گا کہ پتا بھی نہیں چلے گا”. وہ وار کر تو بیٹھا، پر پتا ہمیں چل رہا ہے۔ کیا کہا؟ چند بگڑے بلوچوں نے ٹرین یرغمال بنا لی۔

کچھ نیا نہیں. 1973 میں عراقی سفارت کے صرف ایک کمرے سے بلوچوں کو تحفتاً دیے جانے کو اسلحہ بھرے 23 صندوق نکلے تھے. باقی سارا اسلحہ اتنا کہ پوری رجمنٹ مہینوں لڑے، ختم نہ ہو (جنگ 12 فروری 1973)۔ اور وہ کلبھوشن بھی تو ہے؟ بیرونی شکاریوں کو حاملین ذوق نخچیری اندر سے ملتے ہیں، کبھی اہل سیاست سے تو کبھی صحافت کے پرچم تلے۔ مسحور بنگالی بھارت سے آزادی ملتے ہی، اپنے بنگ بندو کا نام و نسب نصاب سے، سڑکوں پارکوں سے، نوچ نوچ کر ہٹا رہے ہیں۔ اور اس کی ڈائن بیوہ سے کاغذ کا حقیر پرزہ لے کر اسے پروانہ افتخار سمجھنے والے ماہ رنگ بلوچ کے چرنوں میں تب سجدہ ریز ہوئے جب وقت قیام آیا۔ آزادی ملتے ہی ننگ دھڑنگ بنگالی سب سمجھ گئے پر اپنی بے مہار صحافت سمجھنا چاہتی ہی نہیں۔ ٹرین کے اغوا کار گھنٹوں کی مار ہیں، ففتھ کالمسٹوں سے کون نمٹے۔ ارے نہیں ان کا روژ،، غازہ اور روغن اتر چکا ہے۔ پوربو پاکستان کی نظر پھر پچھمی پاکستان پر ہے(باقی آئندہ).