حسن شرجیل، جُدائی کے گیارہ سال۔۔۔شکیل احمد ترابی


میرے پیارے حسن۔
اولاد دنیا کی نعمتوں میں سے ایک بہترین نعمت ہے۔جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو ایک لمحہ چین سے نہیں گزر سکتا۔لمحہ اگر ایک سیکنڈ کا ہو تومیرے نُورِِنظر تجھے گھر سے نکلے آج 34 کروڑ 68 لاکھ اور 96 ہزار لمحات ہوگے۔
طویل عرصہ ہم تمہارے بارے لاپتہ رہے، پتہ چلا بھی بھی تو نامہ بر نے کہا اُس کی اپنے گھر واپسی ابھی ممکن نہیں۔اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک کن لوگوں کے قبضے میں آگیا۔؟ جہاں کلمہِ حق لکھنا سب سے بڑا جُرم ٹھرا اور سزا صرف “مُجرم” نہیں اُس کی معصوم اولاد تک کو ملتی ہے۔ سچ لکھا برداشت نہ ہو تو کبھی”مُجرم” کو اٹھا لو تو کبھی اُسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنا لو۔طاقت کے نشے میں چُور اس پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ اُس کے پندرہ سالہ بچے کو سکول کے گیٹ پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، تشفی اِس پر بھی نہیں ہوتی تو اسلام آباد کے بُہت سے بچوں کو غائب کردیا جاتا ہے۔ اقرار کرکے انکار کر دیا جاتا کہ حسن شرجیل ہمارے پاس نہیں۔
کئی سال بعد میرے لاپتہ، تمہارا پتہ تو چل گیا، مگرسچ لکھنے اور کہنے والی فصل کو اب اپنی ہی باڑ(ادارے) کھا جاتے ہیں۔ عقوبت خانوں میں سالہا سال کی درندگی کے بعد مُثلہ بنی لاشیں سڑکوں پر پڑھی ملتی تھیں اور ہیں اور اب تو لاپتہ اداروں سے متعلق قائم نام نہاد ادارے کی ماہانہ رپورٹ و پریس ریلیز میں بھی لاشوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ کیسی بے شرمی ، ڈھٹائی اور درندگی ہے۔؟ اور پھر بھی “بہادر حکمران” دیدہ دلیری سے ریاست مدینہ کی مماثلت کی بات کرتے ہیں۔ کاش کوئی عُمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ہوتا تو اپنے دُرے سے ایسے نام نہادوں کو سیدھا کر دیتا ۔ جو کہتے تھے ماؤں نے بیٹے آزاد جنم دئیے تم نے ان کو غلام کیسے بنانا شروع کردیا۔؟
پتھر دلوں کے بیچ رہ کر سانس لینا مُحال ہے کُجا یہ کہ اپنے جگر گوشوں کو مذبح خانوں کی نذر کیا جائے۔
جُدائی بارے بہت جانا، بہت سُنا اور پڑھا بھی ہے مگر سچ یہ ہے کہ جاننے، سُننے اور پڑھنے سے اس دکھ کا عشرِ عشیر بھی کوئی حقیقت میں نہیں جان سکتا۔
سچ کہا گیا کہ
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ

ظلم اور بربریت انسانوں کو بھیڑیا بنا دیتی ہے۔ مگر اللہ کا شکر کہ طاقتوروں کے ظلم وجبر پر بھی کریم و رحیم رب نے اپنے خصوصی کرم سے نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے جگر گوشے کو بھی بے پایاں صبر عطا کرر کھا ہے، اور پاکستان ہماری محبتوں اور آرزؤوں کا آج بھی مرکز ہے۔ الحمدللّٰہ ہم آج بھی کسی سے کم محب وطن نہیں۔
منظر بھوپالی نے تو کہا تھا کہ
ستم کروگے ستم کریں گے
کرم کروگے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے
جوتم کروگے وہ ہم کریں گے
مگر ہم تو کہتے ہیں کہ کسی کا سِتم ہمارے دلوں سے مملکت پاکستان کی محبت کُھرچ کے بھی نکال نہیں سکتا۔ سچ یہ ہے کہ ہم آدمی نہیں تمہارے جیسے کہ جو تم کروگے وہ ہم کرینگے۔ نہیں ہرگز نہیں
ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے (فیض)
اور ہمارا قافلہ سالار سید علی شاہ گیلانی تو کہتا ہے کہ
“ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔”
ہاں یہ پاکستان ہمارا ہے اور انشاءاللہ ہمارا ہی رہے گا۔
اللہ ہمیں ہمت عطا فرمائے اور اس ملک کا محافظ و جانباز بنا کر رکھے۔
میری راحت جان حفیظ رب تمہاری حفاظت فرماتا رہے، ملکی حالات بعض اوقات پریشان حال کر دیتے ہیں مگر ہم ناامید اور نہ ہی مایوس ہیں۔ اندھیروں میں راستے بنانے والے رب سے پُر امید ہیں اور یقین ہے کہ یہ وقت بھی گُزر ہی جائے گا۔
میرے شرجیل
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
تمہارا ابو
شکیل احمد ترابی