آئندہ دس پندرہ سال کی ترجیحات کا تعین : تحریر محمود شام


زندہ اور با شعور قومیں آئندہ دس پندرہ سال کے لیے اپنی ترجیحات اور اہداف مقرر کرکے ان کے حصول کے لیے سرگرم ہوتی ہیں۔ کیا اس وقت کوئی بتا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے آئندہ دس پندرہ سال کی ترجیحات کیا ہیں اور تحریک انصاف کی کیا۔؟

16اکتوبر 2022 کو 17جولائی 2022 کی مشق دہرائی گئی۔ پاکستان کے ہم عمر ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ اب رونما ہونے والے حالات کے تناظر میں آنے والے دس پندرہ سال کی تصویر دیکھوں۔ ہر چند دھندلی کیوں نہ ہو۔ میرے سامنے پاکستان کے 75 سال بکھرے ہوئے ہیں۔ کتنے سانحے۔ کتنے حادثے۔ یہ میرے ذہن پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ کے بھی۔ ایک طرف اس وقت پاکستان تحریک انصاف ہے۔ جو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں بہت کم سن ہے۔ لیکن ان دنوں سیاسی افق پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بلکہ پاکستان سے پہلے کی قائم جماعتیں بھی ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام۔ جو قیام پاکستان سے پہلے جمعیت علمائے ہند تھی۔ جس کی تحریک آزادی میں نمایاں خدمات ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جو پہلے نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ تحریک آزادی میں باچا خان کی طویل جدو جہد ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ 1986سے سرگرم عمل ہے۔ یہ کراچی کی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کی جگہ بہت طاقت ور انداز میں ابھر کر اُردو بولنے والوں کی نمائندہ قوت بنی۔ سندھ میں تو شہری علاقوں میں طاقت کا توازن اس کے ہاتھ میں تھا۔ مرکز کی حکومت بھی اس کی شمولیت کے بغیر نہیں بنتی تھی۔ ہر وزیر اعظم کو 90 پر حاضری دینا ہوتی تھی۔ مسلم لیگ ن 1985 کے بعد وجود میں آئی ہے۔ پہلی بار پنجاب کو اپنا وزیراعظم ملا۔ ورنہ پنجاب کسی اور فاتح کے لیے تالیاں بجاتا رہتا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے بہت جلد اپنا ایک حلقہ بنایا لیکن اس نے دوسرے صوبوں میں ایسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ وہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی متبادل قوت بن کر ابھری تھی۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں بلوچستان عوامی پارٹی بھی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی۔ جمہوری وطن پارٹی بھی۔ لیکن یہ سب اکیسویں صدی کی پیدائش ہیں اپنے اپنے سیاسی حلقوں میں ان کا زور ہے۔ تیرہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم۔ اب تک اپنا کوئی مضبوط تشخص نہیں بناسکا۔ وہ آئندہ کی بات ہی نہیں کررہے بلکہ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے ایک سیاسی خلا چھوڑا ہوا ہے۔ جس کو عمران خان نے نیا سیاستدان ہونے کے باوجود بڑی مہارت سے پُر کیا ہے۔

تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں تو یہ دیکھتا آیا ہوں کہ حکومت وقت سے ہمیشہ لوگوں کی بیزاری بڑھتی ہے کیونکہ اب تک زیادہ تر حکومتیں عوام کو راحت پہنچانے میں اور ان کی زندگی آسان کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کے منشور میں جو عوامی سہولتیں ہیں وہ مسند نشیں ہونے کے بعد پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ کیوں؟ ہمارا بجٹ دفاع پر خرچ ہوتا رہا ہے۔ اب قرضوں کی ادائیگی پر ۔ دوسرے ملکوں میں لوگوں کو جو سہولتیں ملی ہیں۔ پاکستان میں نہیں مل سکی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی دَور ایسا نہیں ہے جب پاکستان کے عوام حکومت وقت سے مطمئن رہے ہوں۔

منتخب سیاسی جماعتیں۔ حکومت میں آتے ہی تنظیمی طور پر کمزور ہوجاتی ہیں۔ اپوزیشن کو ہمیشہ عوام میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال عمران خان ہیں۔ حکومت کی برطرفی سے پہلے وہ ہر روز غیر مقبول ہورہے تھے۔ لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور پی ڈی ایم کے حکمران بننے کے بعد ان کی حمایت میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا بیانیہ نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ ہورہا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو قائل کرلیا ہے کہ 1۔ ان کی حکومت امریکہ نے ختم کروائی ہے۔2۔اور یہ بھی کہ موجودہ سیاسی انتشار کا واحد حل عام انتخابات ہیں۔ جمہوری تاریخ میں اس موقف کو تائید ملتی ہے۔ انڈیا۔ ایران۔ برطانیہ وغیرہ میں جنگوں کے دوران بھی انتخابات کا انعقاد ہوا ہے۔ اقتصادی طور پر بھی جب حالات نہ سنبھل رہے ہوں تو عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ طاقت کا سر چشمہ ملک کے عوام ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی رائے کا اظہار کا موقع ملتا ہے۔ الیکشن کمیشن آزاد، خود مختار ہو، غیر جانبدار ہو۔ اس میں دوسرے ادارے مداخلت نہ کریں۔ عبوری نگراں حکومت اپنے آپ کو صرف الیکشن کے انعقاد تک محدود رکھے تو ملک میں سیاسی استحکام آجاتا ہے۔

اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیرہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت جس میں ہر علاقے کی نمائندگی ہے۔ وہ ملکی سیاسی سماجی صورت حال کا ادراک کرکے کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہی ہے۔ وہ اگست 2023 تک اپنی سرکار برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن قرائن بتارہے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں ان کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت قابو میں نہیں آرہی ہے۔ گزشتہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈالنے کی پالیسیاں پہلے بھی کامیاب نہیں رہی ہیں کیونکہ عوام حکومت وقت سے مضبوط معیشت۔ روزگار اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اپنی قوت خرید کے مطابق چاہتے ہیں۔ ابھی تک اس اتحادی حکومت کی طرف سے کسی ایسے چارٹرکا اعلان نہیں کیا گیا کہ اگست 2023 تک اور اس کے بعد دس پندرہ سال کیلئے ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ وزراء اور معاونین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں ان کے پاس ہیں۔ سیلاب 2022 میں سب سے زیادہ اموات اور تباہی ان ہی دونوں صوبوں میں ہوئی ہیں۔ وفاقی اور ان دونوں صوبائی حکومتوں نے سیلابی صورت حال سے نمٹنے میں کوئی نیک نامی حاصل نہیں کی ہے۔ اسلئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بڑی ٹیم کی ناکامیوں کا ہی خدشہ ہے۔ جس سے عوام میں ان سے بیزاری پیدا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مقامی اور عالمی سرپرستوں کے خلاف بھی جذبات پیدا ہوں گے۔یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ 22کروڑ میں سے 16کروڑ کی آبادی پر عمران خان کی حکمرانی ہے۔ یہاں پی ڈی ایم اپوزیشن میں ہے مگر وہ ان حکومتوں کے خلاف اس طرح سرگرم نہیں ہے جیسے تحریک انصاف اسلام آباد میں بحیثیت اپوزیشن متحرک ہے۔

تاریخ کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم دونوں عوام کو وضاحت سے بتائیں کہ وہ آئندہ دس پندرہ سال میں کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں۔عوام کو کیا سہولتیں اور راحتیں دینا چاہتے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ جنگ