آمنہ مسعود کا پندرہ سالہ درد۔۔۔شکیل احمد ترابی


موت ایک حقیت ہے،ازل سے ابد تک جس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کسی عزیز یا قریبی انسان کی موت پر انسان دکھ درد کی عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرنے والے کے بعد ہم جی نہیں پائیں گے۔سانس لینا تک دشوار ہوجاتا ہے مگر جس رب نے موت وحیات کا سلسلہ قائم کیا اُسی رب نے انسانوں کو صبر اور برداشت کی ہمت بھی عطا کی۔موت پر تو صبر آ ہی جاتا ہے مگر جب کسی کا کوئی پیارا اٹھا کر غائب کر دیا جائے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے،اس کے پیاروں کو اس سے متعلق کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ کہاں ہے؟تو اس کی بازیابی تک اس کے عزیز واقارب روز مرتے جیتے ہیں۔لاپتہ لوگوں کا درد اصلا ًوہی جانتے ہیں جن پر یہ قیامت گزرتی ہے۔ لاپتہ لوگوں کے بارے آواز اٹھانے والوں میں کالم نویس بھی شامل ہے،اِس جرم کی پاداش میں پہلی بار مجھے مارچ2007ء میں اٹھا لیا گیا تھا۔چند گھنٹوں کی حراست میں”میرے میزبانوں ”نے مجھے ڈرانے دھمکانے کی بہت کوشش کی تھی۔بڑی دھمکی یہ دی گئی تھی کہ تم باز نہ آئے تو لاپتہ کردئیے جا ئوگئے تو تمہارے بچوں کی نگہبانی کون کرے گا۔؟میرا جواب دو ٹوک تھا کہ ہم محب وطن ہیں ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوگا۔؟ طاقت کے زعم میں مبتلا ”میزبان ”نے کہا محب وطن کون،اس کا فیصلہ آپ نہیں ہم نے کرنا ہے۔میں نے کہا کہ میرے بچوں کی آپ فکر نہ کریں رب موجود ہے۔”میزبانوں ”کی ہدایت کے علی الرغم میں باز نہ آیا تو دو ماہ بعد مئی میں مجھ پر تشدد کیا گیا،پھر بھی مجھے افاقہ نہ ہوا تو ستمبر2007ء میں میرے پندرہ سالہ بیٹے حسن شرجیل کے سکول جا کر وطن کی”محبت سے سرشار لوگوں”نے تشدد کر کے کہاکہ امید ہے اب تمہارے باپ کو آرام آجائے گا۔ جنوری2010ء میں اسلام آباد سے بہت سے بچے لاپتہ کر دئیے گئے جن میں میرا نور نظر حسن شرجیل بھی تھا۔جنرل رینک تک کے لوگوں نے تصدیق کی کہ حسن سرکاری اداروں کی تحویل میں ہے۔اسکی گمشدگی کے گیارہ ماہ اور جدائی کے ساڑھے دس سالوں میں ہم پر جو بیتی وہ ہم ہی جانتے ہیں۔2دسمبر2010ء میں جا کر معلوم ہوا کہ”یار لوگوں”کے نیٹ ورکس نے اسے افغانستان پہنچا دیا ہے۔اس بارے تفصیلات کئی تحریروں میں بیان کر چکا ہوں،آج چند سطریں دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ بتایا جا سکے کہ لا پتہ کر دئیے جانے کا درد کیا ہوتا ہے۔ ابتداء میں جب ہم نے امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالا تو کل تک ہمارے ادارے جن کو مجاہد اور اثاثہ کہتے تھے آناً فاناً وہ دہشت گرد قرار دئیے جانے لگے۔کچھ دہشت گردوں کا علاج ہم نے ماورائے عدالت مار(شہید)کرکے اور کچھ کو لاپتہ کرکے کیا۔لاپتہ لوگوں میں سے جس شخصیت کا معاملہ میرے علم کے مطابق جنرل مشرف کے ابتدائی سالوں میں نمایاں ہوا ان میں جنرل پرویزمشرف کے کمانڈو ٹریننگ کے استاد کرنل راجہ علی محمد کے فرزند جناب مسعود جنجوعہ تھے۔اس وقت سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نویس جناب ارشاد احمد حقانی(مرحوم و مغفور)نے ان کی گمشدگی پر قلم اٹھایا تھا۔محترمہ آمنہ مسعودنے اپنے شوہر کی گمشدگی پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔مسعود جنجوعہ کو30جولائی2005ء کو سرکاری اداروں نے اٹھا لیا تھا اور آج پندرہ سال مکمل ہو گئے ان کے بارے کچھ معلوم نہیں۔شوہر کی گمشدگی پر محترمہ آمنہ جنجوعہ رنجیدہ ہو کر بیٹھ نہیں گئی بلکہ ان ماہ و سالوں میں انہوں نے سینکڑوں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دئیے۔بارہا ان کے دھرنے کئی کئی دن اور رات جاری رہے۔آمنہ پاکستان بھر سے لاپتہ لوگوں اور ان کے دکھی ورثاء کی آواز بن گئیں۔ محترمہ آمنہ نے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس تنظیم قائم کی۔ایک بار انہوں نے راولپنڈی میں ایک قومی ادارے کے مرکز کے قریب مظاہرہ کیا تھا جہاں پولیس اور دیگر اداروں نے ان کے بیٹے پر بے پناہ تشدد کرکے برہنہ کر دیا تھا۔آمنہ اس ملک کی نہ صرف پُرامن شہری ہیں بلکہ حُبِ وطن ان کے جسم وجان کا حصہ ہے۔ ان کے شوہر جنرل مشرف کے دور میں غائب کیے گئے تھے۔مسعود کے والد کرنل راجہ علی محمد بیٹے کی بازیابی کے لئے جنرل مشرف اور بعد ازاں ایک خفیہ ادارے کے سربراہ سے بھی ملے تھے۔(ادارے کے سربراہ کے والد اور راجہ علی محمد اکٹھے فوج میں کرنل رہے)۔جنرل مشرف اور ادارے کے سربراہ نے انہیں کہا تھا کہ مسعود ان کی تحویل میں نہیں۔ دوبار راولپنڈی صدارتی کیمپ آفس میں جنرل مشرف سے ملاقات کرنے والوں میں یہ کالم نویس بھی شامل تھا۔ایڈیٹرز کے سوالوں کے جواب میں فوجی آمر نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا تھا مگر وہ محترمہ آمنہ کا نام انتہائی احترام سے بیگم صاحبہ کہہ کر لیتے تھے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں،میں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عافیہ بہن کا معاملہ تو امریکہ کے ہاتھ میں مگر سیمینار میں موجود میری بہن آمنہ جنجوعہ کے دکھ کا مداوا ہمارے ادارے کیوں نہیں کرتے۔؟اس خطاب کے بعد ایک ادارے کے ذمہ دار نے میرے خطاب کی ویڈیو لگا کر دکھائی اور مجھے سخت سست کہا۔بہن آمنہ سننے پر بھی وہ صاحب مضطرب ہی نہ تھے بلکہ اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ناشائستہ الفاظ استعمال کیے جس پر مجھے کہنا پڑا کہ احترام تو ہر خاتون کا لازم ہے مگر آمنہ مسعود تو جنرل مشرف کے استاد کی بہو ہیں۔جس پر صاحب کی سٹی گم ہو گئی اور کہنے لگے مجھے معلوم نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کے انتہائی محترم سینیٹر فرحت اللہ بابر پابندی سے لاپتہ افراد بارے مظاہروں میں آتے تھے،انکی پارٹی اقتدار میں آئی تو لاپتہ افراد کے معاملے کو بھول گئی۔مسلم لیگ(ن)کے اہم راہنما چوہدری نثار اور خواجہ سعد رفیق تواتر سے دھرنوں میں آتے رہے۔چوہدری نثار تو کہتے تھے کہ لوگوں کو بنانا ریاستوں میں بھی لا پتہ نہیں کیا جاتا۔ایک بار دھرنے میں چوہدری نثار اپنی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو بھی لے آئے۔میاں صاحب نے محترمہ آمنہ مسعود کی وساطت سے لاپتہ افراد کے ورثاء کے لئے نہ صرف پچاس لاکھ روپے کا اعلان کیا بلکہ پورے زور و شور سے کہا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کراکے ورثاء کے حوالے کرینگے۔ بھاری اکثریت سے میاں صاحب اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوئے مگر لا پتہ افراد کے مسئلے کو انہوں نے اپنے ایجنڈے سے رخصت کردیا۔ سب سے افسوسناک کردار تو موجودہ وزیراعظم عمران خان کا ہے جو لاپتہ افراد کے حوالے سے ذمہ دار اداروں بارے سخت تقریریں کرتے تھے۔عمران خان تو یہاں تک کہتے تھے کہ میں اقتدار میں آیا اور کسی ادارے نے کسی پاکستانی کو غائب کیا تو وہ رہے گا یا میں۔خان صاحب کو کون بتائے کہ وہ کیا کیا کہتے رہے۔اقتدار میں آنے کے ڈیڑھ ماہ بعد جنرل ہیڈ کوارٹر میں یوم دفاع کے تقریب میں انہوں نے کہا تھاکہ ہم نے پرائی جنگ لڑ کر ملک وقوم کا بہت نقصان کیا،آئندہ ہم کبھی پرائی جنگ نہیں لڑیںگے۔فوج کے ہیڈ کوارٹر میں”جنرل باجوہ اور اپنے دیگر محسنین ”کی موجودگی میں ان کی منشاء کے بغیر وزیراعظم ایسی بات نہیں کہہ سکتے تھے۔بعد میں محترمہ آمنہ مسعود سے ملاقات میں پاک فوج کے اس وقت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ ہمارے دل تمام لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔سب سے اہم بیان تو فوج کے ترجمان کا ہے۔دلوں کے بھید خدا جانتے ہیں کہ کیا ہیں مگر کیا پندرہ سال اور بعض کے پیاروں کو لاپتہ ہوئے اس سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا۔جب دل لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ دھڑکتے تو ان کو بازیاب کرنے میں کیا آمر مانع ہے؟ اب امریکہ سے یاری بھی ویسی نہیں رہی تو ہمارے ادارے انتقام کی بجائے لوگوں کی ڈی بریفنگ کے بعد محب وطن شہری کے طور رہنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔؟کیا ہم اس بات کا اب بھی ادارک نہیں کر پائے کہ گولیوں کے بیج بونے سے ہم پھولوں کے باغات اگتے نہ دیکھ پائیں گے۔؟