عورتوں کے حقوق کا علمبردار،اپنی بیوی کا قاتل۔؟۔۔۔شکیل احمد ترابی


نام نہاد مغربی معاشرے بظاہر عورتوں کے حقوق کے علمبردار،مگر درحقیقت عورت کے استحصال کے ذمہ دار۔باعزت عورت کو شمع محفل بنانے والے یہی معاشرے ہیں۔ان معاشروں نے پہلے عورت کی تذلیل کا سامان کیا اور پھر عورت کے حقوق کے لئے تنظیمیں اور ادارے بنائے۔درحقیقت یہ سب دکھلاوا ہے۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘جیسے بیہودہ نعروں نے خواتین کو محفوظ نہیں عدم تحفظ سے دو چار کر دیا۔عورت کے حقوق کے نام پر قائم بعض تنظیموں میں شیطان صفت مردگھس آئے،ایسے مردوں نے بعض معصوم بچیوں اور خواتین کو بہلا پھسلا کر انہیںاپنی ہوس کا نشانہ بنایا،بعض نے شادی شدہ عورتوں کے گھر اجاڑے۔اس بناء پر ہمارے معاشرے میں شرح طلاق اور تشدد میں اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ نوبت قتل تک پہنچ گئی ہے۔

قبلِ اسلام کا مرد بھیڑیا بن چکا تھا کسی غیر نہیں اپنی ہی لخت جگر و نور نظر بیٹی کو پیدا ہوتے ہی یا کچھ عرصہ بعد زندہ درگور کر دیتا تھا۔ایسے جاہل معاشرے میں رحمت دو عالم حضرت محمد ﷺکا ظہور ہوتا ہے۔آپ ؐ کی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو مقام بلند حاصل ہوتا ہے۔اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو سردار خواتین جنت کہا۔آپ کو طیبہ،طاہرہ،بتول،زہرا،عابدہ،خیرالنساء اور سیدۃ النساء کہا گیا۔

آپ ؐ کے دربار میں قیدی خواتین میں سے حاتم طائی کی بیٹی پیش ہوتی ہے تو سر کا کچھ حصہ ننگا ہوتا ہے۔آپ ؐ اس کے سر پر چادر ڈالنے کا حکم دیتے ہیں۔مجلس میں کہا جاتا ہے یہ تو کافر کی بیٹی ہے۔آپ ؐ یہ سن کر آبدیدہ ہو کر فرماتے ہیں کہ’’بیٹی تو بیٹی ہے چاہے کافر کی ہو یا مسلمان کی‘‘۔آپ ؐ اس کے سر پر چادر ڈال کر کہتے ہیں’’بیٹا آپ ہمارے ہاں رہنا چاہتی ہو یا گھر واپس جانا چاہتی ہو‘‘۔وہ گھر جانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے،چنانچہ اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔وہ گھر جا کر اپنے مفرور بھائی عدی بن حاتم کو آپ ؐ کے حسن اخلاق کی روئیداد سناتی ہے۔وہ بہن اور قبیلے کے لوگوں کو لیکر قبول اسلام کے لیے آتا ہے۔آپ ؐ ان کے لئے گدا بچھاتے ہیں اور خود زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔

اسلام نے خواتین کے حقوق کا بہترین تحفظ کیا،وراثت میں حصہ مقرر کیا۔آپ ؐ نے بے شمار مواقع پر عورتوں سے حسن سلوک کا حکم دیا۔اپنی زوجات کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، آٹا تک گوندھ کر دیتے۔

ایسے شفیق پیغمبر ﷺکے امتی کو سراپا شفقت ہونا چاہیے نہ کے درندہ۔ہمارے معاشرے میں بڑھتا تشدد دین سے دوری کے سبب ہے۔

29جون2020ء کو راولپنڈی میں مبینہ طور پر عورتوں کے حقوق کے علمبردار نجی ٹی وی کے پروڈیوسر علی سلمان علوی کو اپنی بیوی صدف زہرا کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔علی نے صدف کی موت کو خود کشی جبکہ صدف کی بہن مہوش نقوی نے اسے قتل قرار دیا۔پولیس نے تشدد کی دفعات مقدمے میں شامل نہ کیں اور محض زیر دفعہ 302مقدمہ قائم کیا۔علی کے حکمران جماعت کے اہم لوگوں سے قریبی روابط بتائے جاتے ہیں۔مہوش کے بقول اسے تھانے میں بھی ملزم کے طور پر رکھے جانے کی بجائے سہولتیں اور منرل واٹر تک دیا جاتا رہا۔

آلہٰ قتل،پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹس کے آنے سے قبل علی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ روایت سے ہٹ کر علی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کیوں نہیں ہوئی ۔؟ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘

مقتولہ صدف ا کی بہن ڈاکٹر مہوش بتاتی ہیں کہ علی نے اپنی اہلیہ صدف کو قتل کرنے کے بعدمجھے فون کیا کہ صدف نے کچھ کر لیا ہے تم جلدی آؤ۔اس کے بعد علی نے فون بند کردیا۔

مہوش اپنی والدہ اور اپنے خاوند کے ہمراہ بہن کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ میری بہن کمرے کے چھت والے پنکھے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔مہوش نے پولیس کو بتایاکہ علی سلمان میری بہن پر شروع سے ہی ذہنی و جسمانی تشدد کرتا تھا۔اسے کئی بار سمجھایا گیا مگر وہ تشدد کرنے سے باز نہ آیا۔مہوش نے پولیس کوبتایا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ علی نے میری بہن کوقتل کیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ علی سلمان کے پچاس سے زائد ٹویٹر اکاؤنٹس،سیل فون کی چھ سمز اور درجنوں فیس بک اکاؤنٹس تھے۔

صدف کی قریبی دوست ایف عارف نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کئی انکشافات اور بعض دستاویزی ثبوت اپ لوڈ کرتے ہوئے کہا کہ علی کے صرف صدف سے روابط نہیں تھے بلکہ وہ ایک ہی وقت میں کئی عورتوں سے ہمدردی کے نام پر معاشقے کرتا رہا اور بعض عورتوں کو بلیک میل کر کے ان سے رقوم بھی حاصل کرتا رہا۔علی کے یہ روابط بیرون پاکستان بھی تھے۔

ایف عارف نے اس حوالے سے ویسٹرن یونین کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی کئی رسیدیں اورعورتوں سے چیٹ کے دستاویزی ثبوت بھی اپ لوڈ کیے۔ایف عارف نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ مرحومہ صدف نے شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ملزم علی کی مختلف خواتین سے چیٹ پکڑ لی جس پر ان کے اختلافات شروع ہوئے جو بعد میں تشدد کا رخ اختیار کر گئے۔ایک بڑا عرصہ صدف نے اس سارے ظلم کو تنِ تنہاء برداشت کیا اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو نہ بتایا کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی تھی مگر جب تشدد بڑھ گیا تو ایک بار وہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی بعد ازاں علی نے صدف کویقین دہانی کروائی کہ وہ اسے ایک موقع دے اور واپس آ جائے وہ واپس آ گئی۔وہ حاملہ تھی اس دوران بھی اس پر تشدد ہوتا رہا اور وہ برداشت کرتی رہی۔بیٹی کی پیدائش ہوئی تو صدف نے اس توقع کا اظہار کیا کہ علی اب بیٹی کا باپ بن گیا شاید بدل جائے مگر اس کا تشدد رکا اور نہ وہ معاشقوں سے بازآیا۔صدف کی دوست نے کہا ہے کہ صدف، علی کے رویے سے تنگ آ چکی تھی اس کا خیال تھا کہ 20جون2020ء کو اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کے بعد وہ کوئی فیصلہ کرے گی مگر علی نے صدف کے فیصلے سے قبل ہی29جون کواسے قتل کر دیا۔علی اور صدف کے ٹویٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علی بظاہر عورتوں کے حقوق ہی نہیں بلکہ عورت مارچ کا بھی بڑا علمبردار تھا جبکہ صدف نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ وہ عورت مارچ کے خلاف تھی۔7جنوری2020ء کے بعد کے ٹویٹس میں صدف نے بظاہر اپنی ایک دوست پر گھریلو تشدد کے حوالے سے ٹویٹس میں کہا کہ وہ عورت مارچ میں جائے گی،اپنی اور بیٹی اور مستقبل کی نسلوں کے حوالے سے بات کریگی۔صدف کے ٹویٹس پر لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی سلجھی ہوئی خاتون تھی جو اپنے دکھ کو اپنی کسی دوست کے حوالے سے بیان کرتی رہی ۔رائی کو پہاڑ بنانے والے ذرائع ابلاغ کی صدف کے معاملے میں مجرمانہ خاموشی بھی ناقابل فہم ہے۔انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے،ملزم گرفتار ہے اب پوسٹ مارٹم اور فرانزک تفتیش جاری ہے۔ میں انصاف کے عمل کویقینی بناؤں گی۔انصاف کی دعویدار حکومت شاید ٹویٹس کے ذریعے ہی عدل کا نظام قائم کر رہی ہے،وہ شریکِ جرم ہیں یاانہیں معلوم ہی نہیں کہ بیان بازی سے عدل کا نظام قائم نہیں ہوتا۔

حجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ میں شادی سے انکار پرSHOانجم ضیاء نے خاتون کیساتھ جو شیطانی کھیل کھیلا وہ ناقابل بیان ہے۔RPOنے انجم کو معطل کر دیا تھا مگر بے بس خاتون کو عدالت میں پیش کرکے انجم بری ہو گیا اور ہمارے حکمرانوں نے اسے شیطانی کھیل کھیلنے کے لئے آزاد کر دیا ہے۔

خدشہ ہے کہ جڑانوالہ پولیس نے بائیس سالہ ارسلان کے قتل کو جیسے خود کشی بنا دیا ہے کہیں پنڈی پولیس بھی صدف کے قتل کو خود کشی کا رنگ دیکر ملزم علی کو بری نہ کر دے۔پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے علمبردار جناب عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا دعوؤں سے نہیں بلکہ سخت اقدامات سے ممکن ہوگا۔