سید منورحسن _ ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا۔۔۔۔شکیل احمد ترابی


لوگوں کی اکثریت ہوائوں کے رخ پر چلنے کی عادی ہے۔حکمرانوں اور بااثر لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے۔

خوشامد کا زینہ استعمال کر کے ترقی پا جانے والے۔

اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دنیا بنانے والے۔کار،بنگلہ،کارخانہ اور پھر پارلیمان تک پہنچنے کے لئے اصولوں اور جماعتی روایات کو پامال کرنے والے۔

مرشدی منور حسن سرتاپا ایسے لوگوں سے مختلف تھے۔سیاسی حرکیات کو اچھی طرح سمجھنے والے۔جماعت اسلامی1977ء میں انہیں کراچی کے ایک حلقے سے امیدوار کے طور پر کھڑا کرتی ہے تو ہر جانب سے،پیر و جواں ایک ہی نعرہ بلند کرتے ہیں۔

”صبح منور شام منور،روشن تیرا نام منور”

روشن کردار و چہرے والے منور حسن پورے پاکستان کے امیدواران میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔قومی اسمبلی کا انتخاب جیت جاتے ہیں مگر تاریخی دھاندلی کی وجہ سے قومی اتحاد کے فیصلے کے تحت حلف نہیں اٹھاتے۔

لوگ اپنی ایک سیٹ کے لئے پوری پوری جماعتوں کو تماشہ بنا دیتے ہیں،سالہا سال سے کروڑوں پھونکے جارہے ہیں مگر سیدی ایسے نہ تھے ۔کراچی کی امارت کے بعد مرکز جماعت منصورہ میں اکیس سال،سیکریٹری جنرل و امیر جماعت رہنے کے باوجود جناب منور حسن کسی طرح کا امیدوار بننے کی لام بندی نہیں کرتے۔وہ چاہتے تو ان اکیس سالوں میں کئی بار ایوان بالا(سینٹ)کا رکن تو بن سکتے تھے۔

ہمارے ہاں لوگ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں یا حکم کے منتظر ہوتے ہیں۔پنڈی کی لال حویلی کے” بقراط عصر ”کے بقول اکثر سیاستدان فوجی نرسری کی پیداوار اور گیٹ نمبر چار(جی ایچ کیو)سے ہدایات لیکر آگے بڑھتے ہیں۔مرشد منور حسن ہوائوں کے موافق چلنے والے نہ تھے بلکہ ہوائوں کا رخ بدلنے والے قائد تھے۔ قابل اجمیری نے شایدانہی سے متعلق ہی کہا تھا کہ

ہم بدلتے ہیں رخ ہوائوں کا آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

سچائی اور حقانیت پر چلنے والے لوگوں کے امام منور حسن تھے۔بات سچ اور حق ہونی چاہیے پھر جناب منور کو اس راہ سے ہٹانے والا کسی ماں نے جنم نہیں دیا تھا اور یہ بات انہوں نے اپنے قائد، بانیِ جماعت سید مودودی رحمتہ اﷲعلیہ سے سیکھی تھی جو یہ کہتے تھے کہ کوئی بھی ساتھ نہ دے گاتو میں تنِ تنہاء بھی اﷲ کے پیغام کو پہنچاتا رہوں گا۔

آج تو عمران خان بھی اپنے محسنین کے اشارے پر امریکی جنگ کو پرائی جنگ کہتے ہیں۔ مگر وہ بہت پرفتن اور مفاداتی دوڑ کا دور تھا۔آقائے امریکہ کی رضا کا حصول ہمارا نصب العین بن چکا تھا۔امریکی اشاروں پر چند نہیں ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو ہمارے اداروں نے لاپتہ کر دیا تھا یا مُثلہ بنی ان کی نعشیں سڑکوں پر پڑی ملتی تھیں۔اس دور میں چوکوں اور چوراہوں پر کھڑا ہو کر زردای، گیلانی و کیانی کا نام لیکر للکارنے کے لئے بہت حوصلہ چاہیے تھا یہ جگرا جناب سید اخلاق حسن کے فرزند سید منور حسن کا تھا جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے آبپارہ چوک میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل کہتے تھے کہ کاش ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کے ادارے نہیں دشمن ملک بھارت کے ادارے اٹھاتے اور لاپتہ کرتے۔وہ سچے محب وطن پاکستانی تھے جو چاہتے تھے کہ پوری پاکستانی قوم باالخصوص نوجوان نسل اپنی سپاہ کی پشت پر کھڑی رہے اور یہ تب ممکن تھا کہ ہمارے ادارے اپنے لوگوں کیخلاف ایسے اقدامات سے باز رہتے۔اقتدار کو طول دینے کے لئے پرویز مشرف نے ہمیں اس جنگ میں جھونک دیا تھا جس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔سید منور حسن کو” یار لوگوں کے ترجمان ”نے نرم چارہ سمجھ کر کہا تھا کہ وہ معافی مانگیں۔

منور حسن جس جماعت کے امیر تھے اس کا پریس ریلیز آج بھی ریکارڈ پر موجود کہ معافی تو دور اپنے امیر کے بیان کی تردید بھی نہیں کرینگے۔اس وقت بھی کچھ لوگ بے پرکی اڑاتے رہے کہ جماعت کے لوگ اپنے امیر کیساتھ نہیں، دوسری بار ایسی باتیں اس وقت کی گئیں کہ جب جناب سراج الحق جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔کچھ لوگوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ سید صاحب ایک بار پھر جماعت کے امیر بنیں،یقینا اسٹیبلشمنٹ لوہے کے چنے کو ایک بار پھر امیر بنتا کیسے دیکھ سکتی تھی۔جماعت کے کچھ کمزور دل اراکین کو بھی ممکن ہے ایسا خیال آیا ہو اور انہوںنے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر ایسی کمزوری یا کسی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا ہو مگر جو لوگ سید مودودی کی اصل جماعت کو جانتے ہیں وہ کہنا تو درکنار ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط ہو گئی کہ جماعت اسلامی جیسی بہترین اور عمدہ تنظیم میں نقب لگا کر اپنی مرضی کا امیر منتخب کر سکے۔جماعت اسلامی کے اراکین و قائدین بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، بشری کمزوریاں ان میں بھی ہو سکتی ہیں۔یہاں جو بات مجھے معلوم ہے اس کا ذکر نہ کرنا بغض کے مترادف ہوگا کہ کے پی کے میں سینٹ کے انتخاب کے موقع پر بااثر لوگ نہیں چاہتے تھے کہ جماعت اپنے امیدوار جناب مشتاق احمد خان کے انتخاب کے لئے مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی سے مفاہمت کرے جو اپنے امیدواران کی کامیابی کے لئے جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر آمادہ تھے۔چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگیوں نے پس چلمن قوتوں کے اشاروں اور بھاری مالی مفاد حاصل کرکے جناب راجہ ظفر الحق کو ووٹ نہ دیا مگر جماعت اسلامی کو کوئی لالچ اور دبا ئوباز نہ رکھ سکا۔یہ تمام دبائو امیر جماعت جناب سراج الحق اور سیکریٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ ہی پر تو تھا جنہوںنے اپنے پالیسی ساز اداروں سے اس بابت منظوری لینا تھی۔2018ئکے انتخابات کے موقع پر یہ قوتیں متحدہ مجلس عمل کے احیاء کو روکنے اور جناب سراج الحق کو جناب مولانا فضل الرحمان کی قربت سے روکنا چاہتی تھیں۔اس دبا ئوکا مقابلہ بھی جناب سراج الحق نے کیا،جماعت اسلامی نے اس ”نافرمانی ”کی بہت بھاری قیمت ادا کی اور کئی عشروں سے جماعت اسلامی کو جن حلقوں میں کبھی شکست نہ ہوئی تھی وہ بھی جماعت ہار گئی۔

بہت کم لوگوں کو معلوم کے سید منور حسن امیر منتخب ہوگئے اور قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے جب منور صاحب سے حلف کے لئے شوریٰ کے اجلاس بارے مشورہ کیا تو جناب منور نے کہا کہ حلف نہیں میری معذرت کے لئے اجلاس بلائیے ۔قاضی صاحب نے بتایا کہ میں منور صاحب کا یہ جواب سن کر شِشدر رہ گیا اور کہا کہ آپ نے ایسا کرنا تھا تو جب آپ کا نام پینل میں آیا تھا آپ اس وقت معذرت کر لیتے۔منور صاحب نے قاضی صاحب کو جواب دیا کہ امیر محترم میں ایسا کرتا تو کیا اس سے یہ مترشح نہ ہوتا کہ مجھے یقین تھا کہ میں امیر منتخب ہو جائوں گا۔قاضی صاحب،منور صاحب کی دلیل کے قائل ہوگئے کہ شوریٰ معذرت کے لئے بلائی جائے۔قاضی صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ اراکین شوریٰ اور جماعت کی قیادت کو منور صاحب کو قائل کرنے کے لئے خاصا وقت صرف کرنا پڑا تب جا کر منور صاحب نے حلف پڑھا۔

قاضی صاحب نے اس کالم نگار کو بتایا کہ منور صاحب کے امیر منتخب ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیاجنہیںمیں نے جواب دیا کہ امیر تو اراکین جماعت ہی بناتے ہیں مگر میں منور صاحب کے امیر بنے پر بہت مطمئن ہوں کہ میں بھی ایسا ہی چاہتا تھا۔قاضی صاحب نے کہا کہ اﷲ رب العزت کے ہاں پیشی کے موقع پر اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ جماعت کِس کے حوالے کر کے آئے ہو تو میں رب کو بھی یہ جواب دوں گا کہ موجود لوگوں میں سب سے زیادہ باعلم، باکردار اور صاحب تقویٰ شخص منور حسن کے سپرد کر کے آیا ہوں۔

باب العلم سیدنا علی رضی اﷲ تعالی نے ایک بار باآواز بلند کہا کہ ”جا جا میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں”۔کسی نے پوچھا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ”دنیا اپنی تمام تر رنگینیوں کیساتھ آئی تھی جسے میں نے تین طلاقیں دیکر بھگا دیا۔”

جماعت اسلامی کی شوری و مرکزی مجلس عاملہ کے رکن اور ہمارے مربی جناب سید شاہد ہاشمی نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے کہ

”اﷲ ‘آپ نے سیدمنورحسن کو اپنے پاس بلا لیاہے۔یہ آپ کے خالص و یک سو اور زاہد و بے غرض بندے تھے۔جنہوںنے دنیا سے بس اتنا لیا، جو ناگزیر تھا۔”

سچ یہ ہے کہ اس دنیا سے صرف ناگزیر لینا آسان نہیں مگر جناب منور حسن نے اس کی عملی تصویر پیش کی۔احسان اسے کہا گیا کہ بندہ نماز کی ادائیگی کے وقت اﷲ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اﷲ اسے دیکھ رہا ہے۔جناب میاں طفیل محمد احسان کی ایک بہترین مثال تھے مگر 1984ء میں منصورہ کی ایک تقریب میں میاں صاحب نے کہا کہ ”آج کے دور میں کسی کو احسان کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو سید منور حسن کو دیکھ لے”۔اﷲ اکبر کون کس کے بارے گواہی دے رہا ہے۔

ایک ادارے کے بیان اور منور صاحب کی امارت سے فراغت کے موقع پر جن لوگوں نے اسے اسٹیبلشمنٹ کا شاخسانہ قرار دیا تھا اسی قبیلے کے کچھ لوگ جناب سید کی رحلت کے موقع پر ایک بار پھر پر ایک” باریک واردات ”یہ کر رہے ہیں کہ وہ جناب سید کو خراج عقیدت اور جماعت اسلامی پر خوبصورتی سے تبرّہ بھیج رہے ہیں ایسے نادانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سید جب تحریک اسلامی میں شامل ہو گئے تو دو چار برس نہیں ساٹھ سال تک ان کا اوڑھنا بچھونا جماعت اسلامی ہی تھی جس کے پلیٹ فارم سے وہ رب کی رضا کے حصول میں مگن رہے۔ سید کو بہترین خراج تو یہ ہے کہ ان کی تحریک کے ہم رکاب ہم بھی ہوں۔اپنے لئے تو میری دعا یہ کہ اﷲ تو مجھے اس سید کی خاک ِپا کا کوئی ذرہ بنا دے۔

یہ بات چونکہ جناب سید کے حوالے سے قومی ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی پوسٹس پر آ چکی اس لئے خوگر حمد جماعت کی قیادت باالخصوص جناب سراج الحق،جناب لیاقت بلوچ اور جناب امیر العظیم سے گزارش کرتا ہے کہ سید تو امارت کی ذمہ داری سے خود فارغ ہونا چاہتے تھے اس لئے ان کے بارے کوئی گمان مناسب نہیں مگر جن پانچ ہزار ووٹوں بارے سید صاحب کا حوالہ دیا جارہا ہے اس اور جن لوگوں نے کوئی بے احتیاطی کی کو سنجیدگی سے توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے لئے جماعت اسلامی کی درخشندہ روایات کوپامال نہ کریں۔

جناب شاہد ہاشمی نے لکھا کہ محبوبِ خالق و مخلوق ۖنے فرمایا تھا کہ”اگرتمہیں غم و اندوہ گھیر لیں تو اس وقت دنیا سے میری رخصتی کو یاد کرلینا۔”

دکھ کی ان گھڑیوں میں آپ ۖ کا یہ فرمان ہی واحد سہارا ہے۔اﷲ تیرا وہ بندہ جو سارے عالم سے خفا تیرے لئے تھا تیرے پاس پہنچ گیا، تو اس سے عفو و درگزر کا معاملہ کرنا ، اسے شہداء اور صدیقین کی قربت نصیب کرنا۔ آمین یا رب العالمین