اہل مغرب ہم نہیں ، نفرت تم پھیلاتے ہو۔۔۔۔۔ شکیل احمد ترابی


اہل مغرب ، مسلمانوں کے بارے کہتے ہیں کہ وہ نفرت، انتہا پسندی اور تشدد کو پھیلانے کا باعث ہیں۔جھوٹ سفید جھوٹ۔ انفرادی طور پر کوئی مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ ہمیں طعنہ دینے والے بدرجۂ اُتم خود ان بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارا دین تو سلامتی کا دین ہے، امن کا دین۔
راقم نے کل ایک کشمیری مجاہد کی شہادت پر انھیں چند سطروں کا خراج پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
“ذاکر موسیٰ کی شہادت کے بعد جسد اُسکی قابل فخر ماں شہزادہ بانو کے سامنے لایا گیا تو انھوں نے کہا “ اسے زندگی کی ہر آسائش میسر تھی، کیا تھا جو اٗس کے پاس نہ تھا، لیکن اسنے اللہ کی راہ میں چلنے کا انتخاب کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے اسے مجھے دیا ہی اسی لئے تھا کہ وہ اس سے اپنی رضا کا کام لے ۔”
ذاکر رشید بھٹ المعروف ذاکر موسیٰ مشرقی پنجاب کی جامعہ پنجاب میں سول انجئنیرنگ کا طالب علم تھا ، 2013 کی چھٹیاں گزارنے گھر آیا تو دنیاوی ترغیبات اور چمک کو لات مار کر حزب المجاہدین میں شامل ہو گیا اور برہان وانی کی معیت میں مسلح جدوجہد شروع کی۔
کشمیر ، فلسطین اور افغانستان میں انجئنیر احسن عزیز اور نہ جانے کون کون سے انجئنیرز، ڈاکٹرز اور پروفیسرز نے دنیا کی کامیابی، دلکشی اور کشش کو چھوڑ کر جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کے غلبے اور مظلوم مسلمانوں کو جابروں کافروں کے پنجۂ استبداد سے چھڑانے کے لئے میدان قتال کا انتخاب کیا۔ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان مقدم رشید کی اپنے چاہنے والوں کو لکھی تحریر یاد آرہی ہے کہ “ یہ دنیا، یہ عالیشان گھر ، آرام دہ کاریں، ماں باپ کی شفقت ، بہن بھائیوں کی محبت اور اس دنیا کی زینت و رغبت کس کو اپنی طرف نہیں کھینچتی ، کسے اچھی نہیں لگتی ۔؟؟مگر جب مسلک لشکر محمد صلعم کا غلبہ ہے تو یہ سب چھوڑنا ہی پڑتا ہے، مقدم نے کہا پیارو اللہ نے اس دنیا میں نہ ملایا تو پھر اٗسکی جنتوں میں ملاقات ہوگی۔”
موسیٰ ذاکر اور اس قبیل سے تعلق رکھنے والو تمہارے آباء ایسی راہوں پر چلتے ہوئے جب کام آجاتے تھے تو کہتے تھے کہ
“ﻓﺰﺕ ﺑﺮﺏ ﺍﻟﮑﻌﺒﻪ۔۔۔ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔”
میرے مجاہدو۔۔۔ کامیابی مبارک ہو۔”
درج بالا مختصر تحریر میں نہ کسی کو دھمکی دی گئی، نہ تشدد کی بات کی گئی اور نہ ہی نفرت پر مبنی کوئی ایک لفظ استعمال کیا گیا۔
مگر
مگر
میرے دو فیس بک اکاؤنٹس اور ایک لائک پیج (جن پر تیس ہزار سے زائد دوست/ پیروی کرنے والے موجود تھے ) کو فیس بک انتظامیہ نے ناکارہ بنا دیا۔ ہمیں یہ بات تو پہلے ہی اچھی طرح معلوم ہے کہ یہود، ہنود اور نصاریٰ سب مسلمانوں کے دشمن ، مگر کتے بلیوں کے حقوق کی بات کرنے والے روزانہ اپنے اقدامات سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ مسلم دشمنی میں کچھ بھی کر سکتے ہیں اور انکی شریعت میں مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں۔
فیس بک پر رابطہ باقی انسانوں کی طرح میرا بھی حق ہے مگر مجھے اس سے محروم کردیاگیا ، محض یہ کہہ کر کہ آپ کی تحریر تشدد و نفرت پھیلانے کا باعث تھی۔ اہل مغرب ہم نہیں ، نفرت تم پھیلاتے ہو۔
سچ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اپنا غلام بنا کر اہل مغرب تم نے ہمارے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ان وسائل سے تم دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہو۔
کاش مسلم حکمران عیاشیاں چھوڑ کر ان وسائل کو تعلیم اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتے اور ہم بھی اہل مغرب کو جواب دے سکتے۔
اے کاش ۔۔۔۔
مگر یاد رکھو میرا رب کہتا ہے کہ
“انسان اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے اور بے شک غالب تو اللہ ہی کی چال نے ہونا ہے۔”
یاد رکھو ہمارے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے گھر میں پرورش کروائی ، وہ رب آج بھی موجود ، زندہ و جاوید، نہ اٌسے اونگھ آتی ہے ناں نیند۔ ہم کمزور ہیں ہمارا رب کمزور نہیں، بہت جلد وہ تمہاری چالیں پلٹ دیگا۔