“مجاہد حقانی بھی چلے گے۔”۔۔شکیل احمد ترابی

عظیم مجاہد مولانا جلال الدین حقانی داعی اجل کو لبیک کہہ گے۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

ایسے عظیم لوگوں کے لئے ہی تو ہمارے رب نے فرمایا کہ

يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّـةُ (27)”

اے اطمینان والی روح۔

اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28)

اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔

فَادْخُلِىْ فِىْ عِبَادِيْ (29)

پس میرے بندوں میں شامل ہو۔

وَادْخُلِىْ جَنَّتِيْ (30)

اور میری جنت میں داخل ہو۔

(سورہ الفجر)”

بیشک

اس سے بڑی کامیابی اور خوش بختی اور کیا

ہے۔؟

کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے، ساری دُنیا آپ کیساتھ ہو اور رب ناراض تو اس سے بڑا گھاٹا کونسا اور ساری خدائی ایک طرف اور رب آپ کی طرف تو اس سے بڑی کامیابی اور کیا۔؟

وفات کی خبر آتے ہی ایک صاحب نے لکھا کہ جلال الدین حقانی کی وفات کے ساتھ جہاد کا باب بند ہو گیا ہے ۔

ان “دانشوروں” کو کون سمجھائے کہ ایسی سوچ کے آگے بند باندھنے کے لئے ہی تو جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عظیم کمانڈر جناب خالد بن ولید کو معزول کیا تھا کہ لوگوں کی یہ رائے بن رہی تھی کہ جہاں خالد بن ولید ہوتے وہ معرکہ مسلمان جیت جاتے اور جہاں وہ نہ ہوں وہاں شکست مسلمانوں کا مقدر۔جناب عمر فاروق نے جناب خالد کی معزولی سے ثابت کیا کہ شخصیات نہیں جدوجہد کو اللہ کا فضل کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ جناب عمر فاروق کے ایک حقیر غلام کے طور ہم بھی یہ بات دہراتے ہیں کہ جدوجہد خالص ہو گی تو تا قیامت اللہ کی نُصرت ہم کو حاصل رہیگی ۔

جلال الدین حقانی جیسے ملٹری کمانڈر جہادی تنظیموں کو کم کم ہی نصیب ہوئے۔

جلال الدین حقانی 1939 میں افغان پکتیا صوبے کے ایک گاؤں کاریزگے میں پیدا ہوئے۔ 1964 میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پشاور میں کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ افغانستان میں داؤد خان کی حکومت کے خلاف سازش میں نام سامنے آنے کے بعد جلاوطنی اختیار کر کے میران شاہ آ گئے، اور یہیں سے روسی فوجوں کے خلاف منظم جہاد کا حصہ بنے۔ روس کے خلاف جنگ میں آپ مولوی یونس خالص کی حزب اسلامی میں شامل رہے۔

جہاد افغانستان کے ابتدائی برسوں ہی میں جلال الدین حقانی اہم ترین جہادی کمانڈرز میں سے ایک کمانڈر بن گئےتھے۔اس دور میں سب سے بڑی طاقت ان کا خوست اور پکتیا میں موجود مضبوط نیٹ ورک تھا۔ان کا خاندان ٹرانسپورٹ اور تجارت کے شعبوں سے وابستہ تھا۔ اپنے تعلقات اور تنظیمی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے حقانی نے مجاہدین کو اسلحے اور دیگر سپلائیز کی ترسیل کا ایک شاندار نیٹ ورک بنایا جو صرف خوست اور پکتیا تک محدود نہیں تھا بلکہ کابل اور اس سے آگے تک پھیلا ہوا تھا۔

حقانی جری کماندان ہی نہیں بہترین منتظم بھی تھے۔بہترین حکمت عملی سے انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی تنظیم مجاہدین کی باہمی چپقلش کا شکار نہ ہونے پائے۔مجاہدین کی طاقت برقرار رہے اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔آج امریکی پاکستان سے سب سے بڑا مطالبہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کاروائی کا کرتے ہیں ۔

مگر پرلے درجے کے مفاد پرست امریکیوں کا اسوقت کا کانگریس مین چارلی ولسن ، جناب

حقانی کو “سراپا نیکی” (Goodness Personified)قرار دیتا تھا۔ امریکینوں نے اس وقت جناب حقانی کی جرات سے متعلق فلمیں بھی بنائی تھیں۔

مفاد پرستوں کے نیکی اور بدی کے معیار ایسے ہی بدلتے رہتے ہیں۔

جناب عبداللہ عزام ، اسامہ بن لادن اور دیگر عرب جہادیوں سے جناب حقانی کے تعلقات

شروع سے ہی شاندار تھے۔ عربوں کو وزیرستان میں لا کر بسانے والے پاکستانیوں

کے ساتھ حقانی بھی پیش پیش رہے۔ عربوں کو جناب حقانی نے بے پناہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی۔

ایک عرب خاتون نے جری حقانی کے جذبہِ جہاد سے متاثر ہو کر ہی اُن سے شادی کی تھی، اس خاتوں کے بطن سے ہی انکے بیٹے نصیرالدین حقانی پیدا ہوئے تھے۔

نصیر (ذبیح اللہ)کچھ عرصہ طالبان کے ترجمان بھی رہے۔ چونتیس سالہ نصیرالدین نومبر ۲۰۱۳کے پہلے عشرے میں نامعلوم گن

مین کی فائرنگ سے اسلام آباد میں شہید ہوگئے تھے، جنھیں بعدازاں میران شاہ کے قریب دفنا دیا گیا تھا۔

روسی افواج کے انخلاء کے بعد حقانی کی قیادت میں حزب اسلامی نے خوست فتح کیا۔ یہ نجیب اللہ حکومت کے خلاف مجاہدین کی اس وقت سب سے بڑی کامیابی تھی۔ کابل کی فتح کے بعد جو مخلوط حکومت بنی اس میں حقانی کو اہم وزارت دی گئی تھی۔

گلبدین اور احمد شاہ مسعود کی جنگ میں حقانی غیرجانبدار رہے،اپنے آپ کو خانہ جنگی سے دور رکھا، جس سے ان کی عزت اور تکریم میں بہت اضافہ ہوا۔

ابتدا میں جناب حقانی طالبان سے بھی دور رہے، بعد ازاں کابل کی فتح کے بعد آپ نے ملا عمر مجاہد کے ہاتھ پر بیت کی۔آپ کو خوست کا گورنر اور بعد میں سرحدی امور کی وزارت دی گئی ۔۲۰۰۱ میں آپکو طالبان کا ملٹری کماندان بنا دیا گیا۔

نو گیارہ کے بعد امریکنوں نے آپ سے تعلقات کی بحالی کی بے انتہا کوششیں اور بہت پیشکشیں کی جو آپ نے ٹھکرا دی۔صدر کرزئی نے ماضی کے دوست کو اپنی کابینہ میں اہم وزارت دینے کی پیشکش کی مگر آپ نے طالبان کا ساتھ کسی صورت نہ چھوڑا۔

آپ کی طالبان سے وفاداری مرتے دم تک جاری رہی ،ان کے چار بیٹے بدرالدین حقانی، محمد حقانی، انس حقانی اور عمر حقانی ۲۰۰۸سے اب تک افغانستان میں شہید ہوئے۔جبکہ پانچویں بیٹے نصیرالدین حقانی کو بین القوامی سازش کے تحت اسلام آباد میں قتل کر کے پاکستانی اداروں اور مجاہدین میں خلیج مزید بڑھانے کی کوشش کی گئی۔

آپ کے بیٹے سراج الدین حقانی طالبان کی صف اوّل کی قیادت میں شُمار کئے جاتے ہیں۔

کچھ بزدلوں نے امریکہ کو اصل طاقت مان کر۹/۱۱ کے بعد اپنی جبینوں کو امریکہ کے سامنے جھکا لیا۔مگر وہ جن کے دلوں میں رب کے سِوا کسی کا خوف نہیں،جن کی جبین صرف ربِ اعلیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے۔ وہ بِلوں میں نہ گُھسے، انھوں نے میدان کارزار کا انتخاب کیا اور دُنیاوی خُداؤں کو ناکوں چنے چُھبواۓ۔ دو عشروں سے ان اہل ایمان کو ڈیزی کٹر جھکا سکے نہ بموں کی ماں “Mother Of All Bombs” / Massive Ordnance Air Blast Bomb”.۔

یہ ہیں وہ لوگ جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف وسائل سے مالا مال امت مسلمہ کے حکمران اور ہم،

چھوٹے چھوٹے لوگوں کی خوشنودی اور کم تر مقاصد کے حصول کے لئے زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔

بعض کی جدوجہد پر تو بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

خوش نصیب ہیں جناب حقانی جنھوں نے ساری زندگی بامقصد گزاری اور موت بھی حالت ایمان پر آئی۔

جناب حقانی نے سویت یونین ہی کیخلاف نہیں بلکہ امریکہ کیخلاف بھی مسلح جدوجہد کر کے یہ ثابت کیا کہ حقیقی جہاد کسی دنیاوی سٗپر پاور کے لئے کبھی بھی نہیں کیا گیا۔

یہ بھی جناب حقانی کی خوش بختی کے اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر گے جو اُن کی طرح راہ حق ہی پر گامزن اور “ وہ راہ حق کے مٗسافر “ بھی جو آرام دہ زندگی چھوڑ کر اپنے افغان بھائیوں کے ہم رکاب ٹھرے۔

جن سے متعلق اللہ نے سورہ صف میں کہا کہ

“اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔”

اور

“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔”

دنیا انھیں دہشت گرد کہے یا اُن کا نام اس سے بھی کوئی بدتر رکھ لیا جائے وہ اللہ سے کی گئی تجارت جاری رکھیں گے۔

دُنیا کے بندے جو امریکہ اور اُس کے حواریوں ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں کو یاد رکھنا چائیے کہ

ایک میدان اور بھی لگے گا

جہاں امریکی حکمران و عادل نہیں ہونگے،

عادل اعلی کے فیصلے کا انتظار کریں۔

جو کہتا ہے کہ

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا﴿1﴾ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا﴿2﴾ وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا﴿3﴾ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا﴿4﴾ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا﴿5﴾ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ﴿6﴾ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴿7﴾ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴿8﴾

جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔اور انسان کہے گا کہ یہ اِس کو کیا ہو رہا ہے۔

اُس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی۔کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہو گا۔اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔

پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

جناب حقانی کی وفات کی خبریں کچھ سال قبل بھی مشہور ہوئیں تھیں مگر پیر کے روز وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گے ، طالبان نے آپکی وفات کی تصدیق کر دی ہے۔

اللہ جناب حقانی کی مساعی جمیلہ قبول کر کے اپنی جنتوں میں اعلی مقام سے نوازے۔

ہمیں بھی سعادت کی راہ پر گامزن رکھے اور شہادت کی موت عطا کرے ۔