کچھ شخصیات کو حیران کرنے کی اضافی خوبی ودیعت ہوتی ہے جو ان کی تحریر تقریر کے علاؤہ شخصیت کے ہر اظہار میں پوری توانائی سے جھلملاتی ہے۔ منصور آفاق بھی ایسا ہی شاعر بلکہ انسان ہے جس کی شخصیت کا ہر پہلو حیران کن ہے۔بظاہر پُرسکون دکھائی دینے والے کے دل و دماغ میں خیالات کا طلاطم بپا رہتا ہے۔ لفظ ’’منصور‘‘ کی انفرادیت اور ’’آفاق‘‘ کی ہمہ گیر تاثیر اس کے وجود کے ہر اظہار پر غالب ہے، اس کی چشمِ بینا آنکھوں سے اوجھل جزیروں کی زرخیز زمینوں سے مشترک مزاج کی حامل زبانوں کے حرف چنتی، سلیقے سے یوں اظہار کا وسیلہ بناتی ہے کہ آخر تک ایک تجسس ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
مجھے یہ تو خبر تھی کہ وہ نعت کے حوالے سے ایک ممتاز شاعر شمار کیا جاتا ہے کہ اُس کا پہلا شعری مجموعہ’’آفاق نما‘‘ جو 1984ء میں شائع ہوا تھا، نعتیہ شاعری پر مبنی تھا یعنی تخلیقی سفر کا آغاز ہی نعت سے کیا گیا مگر یہ خبر نہ تھی کہ اس کی نعت کی تاثیر سے دلوں میں براجمان قیصرو کسری کے لات و منات ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں۔ اس حیران کر دینے والے شاعر نے گزشتہ دنوں اس وقت پوری محفل کو اپنے لفظوں سے پھوٹتے نور کی تاثیر سے باندھ لیا جب پلاک میں عشرہ رحمتہ اللعالمین ﷺ کے سلسلے میں “منصور آفاق بحیثیت ایک نعت گو شاعر” تقریب منعقد ہوئی جس میں وہ ڈیڑھ گھنٹہ تک اپنی سوزوگداز میں گندھی نعتیہ شاعری سناتا رہا اور سننے والے سبحان اللّٰہ کا ورد کرتے رہے۔ نعت کا حرف حرف جذبوں سے بھرا، احساسات میں پرویا اور درد دل کے سیک میں پسیجا ہوا روح میں اترتا رہا۔ اگرچہ اُس کے ہر لفظ میں محبت اور عقیدت کی سرشاری ہے مگر وہ صرف اِس روایتی بیان تک محدود نہیں بلکہ رحمت اللعالمین ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے وہ ذات و کائنات کے معاملات کو عالم کی سی وسعت بخش رہا ہے۔اس کی نعت خیر کا پیغام بن کر دل پر دستک دیتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے اس میں عجب قسم کی دلاویزی سما گئی ہے جو سچے عشق کی دین ہے۔ روح کی سرشاری اور دل کی وارفتگی کو مختلف لب و لہجے اور چنیدہ لفظوں میں پرو کر درود کی تسبیح بنانے والے کا لمحہ موجود میں کوئی مقابلہ نہیں۔
اس نے سیرت النبی ﷺ سے استفادہ کرکے جو نعت کشید کی ہے وہ پہلے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اُس کی نعت میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کے کئی گلستاں کِھلے ہوئے ہیں۔مصرعہ مصرعہ ان کی تعلیمات کی تقلید کے عزم سے بھرا ہوا ہے۔ لفظ لفظ میں عاشق کے دل کی کُوک دھڑکتی ہے۔ اُس کا تقریباً ہر شعری صنفِ سخن پر نعت کہنا سعادت بھی ہے، کمال بھی اور عطا بھی ۔ آزاد نظم سے پابند نظم تک اور پھر غزل کا دلکش پیرہن نعت کی روشنی اور خوشبوسے مہک رہا ہے۔ نعتیہ غزلوں کے نئے قافیہ ردیفوں اور بحروں کے علاوہ اس نے بارگاہ ِ رسالت میں استغاثہ کے طور پر اپنے دکھ جس دلکش پیرائے میں پیش کئے ہیں وہ سُن کر ہر دل میں دِیے جلنے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ زندگی نبی ﷺ کی اطاعت کی روشنی میں آگے بڑھے تو سرخرو ہوتی ہے۔منصور کی نعت میں ویسا ہی تنوع ہے جیسا زندگی میں ہے۔ سرورِکائنات ﷺکی زندگی کے مختلف گوشوں کو نعت کی صورت میں نمایاں کر کے اس نے مبلغ سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اگرچہ نعتوں کے زیادہ تر مضامین احادیث اور قران حکیم سے لئے گئے ہیں مگر انداز بیان کی خوبصورتی نے انھیں نئے رنگ عطا کئے ہیں۔
منصور آفاق کی نعتیہ شاعری مروجہ خدو خال سے الگ اور منفرد ہے۔ انداز جدید تر ہے، طرز بیان میں ندرت ہے،عشق کی وارفتگی ہے مگر اظہار میں ایسی عقیدت کہ لفظوں کے ہاتھ بندھے اور گردن جھکی محسوس ہوتی ہے۔ اُس کی نعت جذبہ ایمانی کا دیا دل میں یوں فروزاں کرتی ہے کہ بے حسی کی برف میں جکڑی فضا نعرۂ رسالت کی گونج سے معمور ہو جاتی ہے۔ عشق رسول کی اسی توانائی نے منصور کو حلیمی، بردباری اور تمکنت عطا کی ہے، دعا ہے وہ یونہی ابر کرم میں بھیگتا رہے اور اس کا کلام پڑھنے والے دل بھی موم ہونے کی طرف سفر آغاز کریں۔ درود کے کچھ اشعار دیکھئے
درود اُس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی
تجلیٰ آدمی کی قریہ افلاک کو بخشی
درود اس پر کہ جو جمہوریت کا دین لایا تھا
جو لوگوں کی بھلائی کیلئے لوگوں میں آیا تھا
درود اس پر کہ جو جاگیرداری کا مخالف تھا
جہاں میں مال و زر کی شہریاری کا مخالف تھا
درود اس پر کہ جس نے سود فرمایا بٹائی کو
کہا جائز فقط اپنی ہی محنت کی کمائی کو
درود اس پر کہا جس نے کہ انساں سب برابر ہیں
زمیں پہ سب لکیریں کھینچنے والے ستم گر ہیں
بشکریہ روزنامہ جنگ