اتنی بے یقینی پہلے کبھی نہیں تھی : تحریر محمود شام


اپنے دل سے سوال کیجئے کہ ہم سیلاب زدہ ماؤں، بہنوں، بھائیوں، بزرگوں کو بھولتے تو نہیں جا رہے ہیں۔

خبر ناموں میں ایک رسم کے طور پر ان کا ذکر ہورہا ہے۔ اپنے گھروں کو واپسی کا مرحلہ زیادہ نازک ہوتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ آپ ان کی جگہ ہوں۔ جب اپنے گھر واپس پہنچیں تو وہ دیواریں زمین بوس دیکھیں، جو آپ کے اس قلعے کی فصیلیں تھیں۔ آپ اس آنگن میں ملبے کے ڈھیر دیکھیں، جہاں آپ اپنے بچپن میں کھیلتے تھے۔ اب آپ کے بچے کھیلتے ہیں۔ کمرے جہاں آپ کے شب و روز گزرتے تھے۔ وہاں اینٹیں بکھری ہوئی ہوں۔ اپنے ہی گھر میں آپ اجنبی سے لگیں۔ آنکھوں سے آنسو نہیں نکلیں گے۔ ذہن پر مایوسیوں کا غلبہ نہیں ہوگا۔ آپ کے بچے آپ سے لپٹ کر سوال نہیں کریں گے۔ آپ کی ماں حیران و پریشان نہیں ہوگی۔ بیگم ایک لمحے کو تو سکتے میں آجائے گی۔ مگر وہ پھر گھر کو دوبارہ اپنا گھر بنانے کا آغاز کردے گی۔ اس لمحے میں سیلاب زدگان کو ہماری زیادہ ضرورت ہے۔ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔یہ دیواریں دوبارہ کھڑی ہوں گی۔ چھتیں ڈالی جائیں گی۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں غم خواری موجود ہے۔ جہاں سینکڑوں فلاحی تنظیمیں بے لوث خدمت کررہی ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے کا دن۔ بہت سے خدشات ہیں۔ خطرات ہیں، جن کے بارے میں سوالات ہوں گے۔ آپ کوذہنی طور پر اسی طرح تیار ہونا چاہئے جیسے ایک اچھا لیکچرر اپنی کلاس کے لیے تیاری کرکے جاتا ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہوگا کہ ان 3کروڑ پاکستانیوں کا اب کیا حال ہے، جو سیلاب کی وجہ سے دربدر ہوگئے تھے۔ ان میں سے کتنے واپس جاچکے ہیں۔ کتنے ابھی تک خیموں میں مقیم ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 11اکتوبر تک آزاد جموں و کشمیر میں 48۔ بلوچستان 336۔ گلگت بلتستان 23۔ کے پی کے 306۔ پنجاب222 ۔ سندھ میں سب سے زیادہ 779۔ ہم وطن سیلاب کی نذرہوگئے۔ آزاد جموں و کشمیر میں 33۔ بلوچستان54۔ گلگت61۔ کے پی کے 107۔ پنجاب 16۔ سندھ میں 165 پل سیلاب کی نذر ہوگئے۔ جہاں تک مکانات کا تعلق ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں555۔ بلوچستان میں 72235 ۔ گلگت بلتستان میں 1211۔ کے پی کے میں 91463 ۔ پنجاب میں 67981اور سندھ میں 1881101 مکانات جزوی طور پر یا مکمل متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں تباہی زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ان کے مال مویشی، بھیڑ بکریاں، بیل، گائے، بھینس، اونٹ بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی معیشت کا انحصار ان مویشیوں پر ہی ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر 792 ۔ بلوچستان پانچ لاکھ۔گلگت بلتستان میں کوئی نہیں۔ کے پی کے میں 21328 ۔ پنجاب میں 205106۔ سندھ 436409 ۔ کل تعداد پونے بارہ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔

ان اعداد وشُمار سے اندازہ کرلیجئے کہ سندھ ،بلوچستان اور کے پی کے میں بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ فلاحی تنظیموں نے بہت امدادی سامان پہنچایا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ملک کے عوام متاثر ہوئے ہوں۔ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں پھر پانی سے متعلقہ بیماریوں نے بھی ان کو گھیر لیا ہو تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ترجیح ان سیلاب زدگان کی بحالی ہونی چاہئے۔ میڈیا کو بھی اس کی زیادہ سے زیادہ خبریں اور تازہ ترین صورت حال سے ناظرین، سامعین اور قارئین کو آگاہ کرنا چاہئے۔ مگر ہمارے ہاں انسانی جان سے کہیں زیادہ اہم سیاست دانوں کی نقل و حرکت ان کی آڈیو وڈیو لیکس، گرفتاری، رہائی اور جلسے جلوس ہیں۔ اسلام آباد میں محصور وفاقی حکومت کی اوّلیں ترجیح پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنا ہے۔کنٹینرز کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ خندقیں کھودی جارہی ہیں۔ آنسو گیس کا تازہ ترین اسٹاک منگوایا جارہا ہے۔ اس ممکنہ کارروائی کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ 40 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایک منتخب حکومت کی ذمہ داری تو یہ ہوتی ہے کہ دوسرے فریق سے مذاکرات کے ذریعے ایسے حالات کو روکا جائے۔ اس وقت عوام میں بہت زیادہ مقبول سیاسی رہنما پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اولین ترجیح جلسے جلوس ہوگئے ہیں۔ حالانکہ 22 میں سے 16 کروڑ پر مشتمل پنجاب۔ کے پی کے۔ آزاد جموں وکشمیر۔ گلگت بلتستان میں ان کی پارٹی کی منتخب حکومتیں ہیں۔ ان کی توجہ ان 16 کروڑ کی جان و مال کی حفاظت، ان کی فلاح، بہترمعیشت، امن و امان، بہتر تعلیم، بہتر صحت ہونی چاہئے۔ یہاں بھی حقیقی آزادی میسر نہیں ہے۔ یہاں بھی جاگیردار ۔سردار۔ مافیا غالب ہیں۔ تعلیم کاروبار ہے۔ صحت بک رہی ہے۔ پولیس کا رویہ عام انسانوں سے بہتر نہیں ہے۔ کے پی کے میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھارہی ہے۔دونوں صوبوں اور دونوں اکائیوں میں وہ مثالی انتظامیہ ابھی قائم نہیں ہوئی، جو عمران خان حقیقی آزادی اور نئے انتخابات کے ذریعے اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ 16 کروڑ کی آبادی میں اگر وہ ان اصلاحات کا تجربہ کرکے دکھائیں تو سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کے لوگ بھی ان کی جھولی میں آگریں گے۔

وفاقی حکومت میں بہت سے جہاندیدہ، گھاگ سیاستدان موجود ہیں۔ لیکن تاریخ میں ان کے ساتھ کسی بہتر حکمرانی کی روایات نہیں ملتی ہیں۔ اس وقت سندھ، بلوچستان اور وفاقی حکومتیں کسی نظریے اور لائحہ عمل کے بغیر ایڈہاک ازم پر چل رہی ہیں۔ اسلام آباد میں توخا ص طور پر گزشتہ 3½سال کا بدلہ سرفہرست ہے۔ آسمان کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح مخصوص قانون سازی کرکے حکمران اپنے خلاف مختلف ادوارمیں قائم کردہ مقدمات سے نجات حاصل کررہے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ملک کے عوام کو راحت پہنچانے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہورہی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

تاریخ پاکستان میں ایسی افراتفری اور بے یقینی کی صورتِ حال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ حکومت اتنی کمزور اور اپوزیشن اتنی مضبوط پہلے نہیں تھی۔ لیکن اس سے ملک کے عوام کو کوئی راحت نہیں بلکہ زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے تو مستقبل قریب میں بہت زیادہ انارکی نظر آتی ہے۔ انتخابات ہونے کے بعد بھی ہنگامہ آرائی رہے گی۔ ادارے بھی اس انتشار کی زدمیں آرہے ہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے میری عرض یہ ہوگی کہ سیلاب زدہ خود اپنے واٹس ایپ گروپ بنائیں۔ وہ مسائل کا سامنا کررہے ہیں انہیں حقائق کا زیادہ علم ہے۔ وہ حقیقی صورت حال سے، اعداد و شُمار سے قوم کو آگاہ کریں۔ ان کو کتنی امداد ملی ہے۔ فلاحی اداروں سے کتنی اور حکومت سے کتنی۔ اب گھروں کی مرمت یا مکمل تعمیر نومیں کون مدد کررہا ہے۔ کتنی ضرورت ہے۔ آپ میں یقیناً کچھ پڑھے لکھے ہوں گے۔ یہاں کچھ میڈیا کے لوگ بھی ہوں گے۔ ان کے ذریعے قوم کو اصل ضروریات سے آگاہ یا خبر کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ