اب ہماری پہچان کون ہیں؟ … تحریر : محمود شام


پہلے تو 1847سے 1947تک کی جدو جہد، صعوبتوں اور مظالم کی ایک پوری صدی۔ سفاک انگریز کے خلاف پہلے جنگ آزادی پھر تحریک آزادی پھر تحریک پاکستان۔ 1947سے 2022 تک منافقتوں، بے وفائیوں، المیوں، سانحوں اور ضمیر فروشیوں کے 75 سال۔

ان 175سال کی مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں ہمیں جو ریاست، جو سماج، جو مساوات، جو حقیقی آزادی ملنی چاہئے تھی وہ تو کجا ہمیں تو ایک عام ملک کے عام آدمی کی حیثیت بھی نہیں مل سکی۔ ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہماری قسمت کے فیصلے کہاں ہورہے ہیں، کون کررہا ہے، کیوں کررہا ہے؟

مجھے وہ مال گاڑی یاد آرہی ہے۔ جس کے ایک کھلے بے چھت کے ڈبے میں ہم انبالہ سے لاہور آرہے ہیں۔ بلوائیوں کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ گھوڑوں کی ٹاپیں۔ لاکھوں لوگ واہگہ کی طرف سفر کررہے ہیں۔ قصور کی جانب رواں ہیں۔ کھوکھرا پار خوابوں کی منزل ہے۔ راستے میں سگے رشتے دم توڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں صدیوں سے رہتے قبیلوں، خاندانوں کے لوگ اجنبیوں کا بڑی محبت سے، لگاؤ سے خیر مقدم کررہے ہیں۔ اپنے گھروں اور دلوں میں جگہ دے رہے ہیں۔ شاہ لطیف کے سروں سے فیض حاصل کرنے والے نظام الدین اولیا کی عقیدت مندوں کو گلے لگارہے ہیں۔ خواجہ غریب نواز ۔معین الدین چشتی کے عشاق کو داتا گنج بخش کے خدام خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ نظریے گلے مل رہے ہیں۔ روحانیت کا اشتراک ہورہا ہے۔ شمال اور مشرق میں گزرنے والی صدیاں مغرب اور جنوب میں عمر بتانے والی صدیوں سے بغل گیر ہورہی ہیں۔ کس لیے۔ ایک صبحِ آزادی کامل کے لیے۔ اپنی اولادوں کے خوشحال مستقبل کے لیے۔ مگرکہاں ہے وہ مستقبل۔ کہاں ہے وہ خوشحالی۔؟

کیا کچھ چھوڑ کر آرہے ہیں؟ وہ گلی کوچے جہاں بچپن گزرا۔ وہ مدرسے جہاں درس نظامی ، قرآن پاک، حکمت،فلسفہ، حدیث پڑھائی جارہی تھی۔ یونیورسٹیاں جہاں دنیا بھر کے اسکالرز روشنی بانٹتے تھے۔ خانقاہیں جہاں دیانت ،صداقت، متانت، کے چشمے رواں رہتے تھے۔ مسجدیں جہاں عبادتیں سرور بخشتی تھیں۔ املاک، حویلیاں، بھائی چارے، کس دن کیلئے ؟ کیسے سماج کیلئے۔ جہاں صرف انصاف ہو۔ جہاں میرٹ پر فیصلے ہوتے ہوں۔ جہاں ہر فرد کی عزت ہوتی ہو۔ جہاں قانون سب کیلئے ایک ہو۔ جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ کیا ایسا ہورہا ہے۔؟

اکتوبر بہت ظالم ہوتا ہے۔ سب کے لیے ۔ مقامی ہوں یامہاجر ہوں۔ کونسا قومی المیہ اس مہینے میں رونما نہیں ہوا۔ ذاتی المیے بھی بہت گزرے ہیں۔ اگست 1947 میں ہجرت کرنے والوں نے اکتوبر 1947 میں اپنے زخموں کا، زیاں کا شمار کیا۔ اکتوبر 1951میں پہلے وزیر اعظم کو پنڈی میں گولی ماردی گئی۔ اکتوبر1958میں پہلا مارشل لا لگا۔ آخری فوجی حکومت بھی اکتوبر 1999میں قائم ہوئی۔

22 کروڑ باشعور انسانوں کی مملکت۔ کہیں پانچ ہزار سال کی روایات اقدار اور میراث والے صوبے تو کہیں دس ہزار سال کی معاشرت کا ورثہ رکھنے والے عظیم علاقے۔ جہاں وفا اور وابستگی کی لازوال داستانیں سینہ بہ سینہ چلتی ہیں۔ جہاں اپنی آن کیلئے سر قربان کردیے جاتے ہیں۔ تلواریں جن کی شان ہیں۔ گھوڑے جن کے ساتھی۔ جہاں علم کے دریا بہتے رہے۔ شعر و ادب۔ تصوف۔ فلسفے کتنی جہات میں سفر ہوتا رہا۔ اب وہاں ایسے لوگوں کو خواجگی عطا کی جارہی ہے جن کی کوئی تعلیمی اہلیت ہے نہ مطالعہ۔ جن کی وجہ شہرت ہیر پھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سارے حلقے، منتخب یا مقتدر سب کے دروازے ان کیلئے کھلتے جا رہے ہیں۔ بڑ ے بڑے مناصب ان کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ ان منصوبہ سازوں کے ذہن میں آخر کیا ہدف ہے؟ وہ ایسے لوگوں سے کون سے کام نکلوانا چاہتے ہیں؟ کیا انارکی کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے؟

قائد اعظم قائد ملت کے بعد ہماری پہچان تھے سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین، شیر بنگال مولوی فضل حق، مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی اور بر صغیر کے آفتاب، ماہتاب، ستارے اور اب ہماری پہچان کون ہیں؟

ان دنوں سب کیلئے کراچی روزگار، خوشحالی اور سنہرے مستقبل کی علامت تھا۔ ایک بندرگاہ جو سب کو خوش آمدید کہتی تھی۔ پورے ہندوستان کے سینکڑوں شہروں سے اساتذہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، حکما، صنعت کار، محنت کش اور سرکاری ملازمین کشاں کشاں آرہے تھے۔ یہاں پہلے سے آباد پارسی خاندان ان کا استقبال کررہے تھے۔ سندھ کے علما، اساتذہ انہیں اپنے مدرسوں، اسکولوں میں باوقار مقام دے رہے تھے۔ سب کی خواہش تھی کہ مل جل کر اس شہر کو امن، علم، دانش اور انسان دوستی کا مرکز بنائیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش بھی تھی۔ مذہب اور سیکولرازم کے مباحث بھی تھے۔ یاد کریں اس شہر کے افق پر کیسے کیسے ستارے درخشاں تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی، چوہدری خلیق الزماں، مولانا عبدالحامدبدایونی، پیر الہی بخش، حکیم محمد احسن، ابراہیم جلیس، مجید لاہوری، شوکت صدیقی، رئیس امروہوی، پروفیسر محمود حسین، پروفیسر اے بی حلیم، آئی آئی قاضی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، حسن علی آفندی، پروفیسر احسان رشید، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید ہاشم رضا، اے ٹی نقوی، میر خلیل الرحمن، ایس ایس جعفری، محمود الحق عثمانی، عابد زبیری، زین نورانی، ماہر القادری، جمیل الدین عالی، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، اشتیاق اظہر، شہزادی عابدہ سلطان، مولانا احتشام الحق تھانوی، حسن اے شیخ، شاہ فرید الحق، ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین، علامہ رشید ترابی، پروفیسر غفوراحمد، علامہ طالب جوہری، پروفیسر محمود اعظم فاروقی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس زیڈ اے چنا، جسٹس عبدالقادر شیخ، جسٹس مشتاق علی قاضی، جسٹس ظفر حسین مرزا، جسٹس ایس اے نصرت، جسٹس نعیم الدین، جسٹس سید سجاد علی شاہ، جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس حاذق الخیری، جسٹس ناصر اسلم زاہد، گورنروں میں شیخ جی ایچ ہدایت اللہ، شیخ دین محمد، میاں امین الدین، حبیب ابراہیم رحمت اللہ، افتخارحسین ممدوٹ، جنرل رحمان گل، ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، بیگم رعنا لیاقت علی خان، دلاور خانجی، جنرل ایس ایم عباسی، جنرل جہاں داد خان، جنرل رحیم الدین، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، محمود ہارون، حکیم محمد سعید، بیرسٹر کمال اظفر، جنرل معین الدین حیدر، ڈاکٹر عشرت العباد، محمد زبیر، عمران اسماعیل۔ اور اب۔؟؟ کتنی بلندی۔ کتنی پستی۔

آزادی کے 75ویں سال میں ہمیں کہاں ہونا چاہئیے تھا، اور کہاں ہیں۔ ڈائمنڈ جوبلی تو کیا مناتے۔ ہم تو 1947سے بھی پہلے کسی مہینے میں پہنچے ہوئے ہیں۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف

آج کچھ دردمرے دل میں سوا ہوتا ہے

بشکریہ روزنامہ جنگ