اسلام آباد میں دفعہ 144کے نفاذکیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پرفیصلہ محفوظ


اسلام آباد (صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ دھرنا کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے طے کردیا کہ پُرامن احتجاج کے لئے اجازت لینا ہوگی، امن وامان برقراررکھنا انتظامیہ کا کام ہے، عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔

درخواست گزار اسد عمر سددفعہ 144سے کیسے متاثرہ فریق ہیں؟کیا درخواست گزار کو پُرامن احتجاج  کے لئے اجازت لینے سے کسی نے روکا؟ کیا پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت نہیں جہاں دفعہ 144کانفاذ ہوتا ہے؟جب پی ٹی آئی کی حکومت کیا اسلام آباد میں دفعہ 144کانفاذ نہیں رہا؟۔

درخواست گزار کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے درخواست میں مئوقف اختیار کی گیا تھا کہ دفعہ 144کا نفاذ پُر امن احتجاج روکنے کے لئے غیر آئینی قانون ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اگر آئین سے متصادم کوئی قانون بنے توعدالت اسے کالعدم قراردے سکتی ہے۔اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ آپ کس چیز سے متاثرہ ہیں، کیاآپ کو کسی بات سے روکا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ دفعہ144نفاذ مسلسل دو دن، یا ایک مہینے میں سات روز سے زائد نہیں کیا جاسکتا،ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دو مہینے دفعہ 144کانفاذ کیا جو خلاف قانون ہے۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، آئین بنیادی طور پر ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ پُرامن احتجاج کرے۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا جن دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں دفعہ 144کانفاذ نہیں کیا جاتا، کیا جب پی ٹی آئی کی اسلام آباد میں حکومت تھی تو کیااس قانون کا استعما ل بارہا نہیں کیا گیا؟ ہمیشہ دفعہ 144کا نفاذ رہا اور شہر میں امن وامان برقراررکھنے کے لئے انتظامیہ اس طرح کے قانون کا استعمال کرتی ہے اور امن وامان برقراررکھتی ہے، یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے لہذا عدالت نے درخواست سے کہا کہ اگر آپ کو قانون سازی سے کوئی مسائل ہیں توآپ پارلیمنٹ سے رجوع کریں، امن وامان برقراررکھنا عدالت کا کام نہیں ہے بلکہ انتظامیہ کا کام ہے، لہذا عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگرآپ قانون کو چیلنج کرتے ہیں تو قانون کااختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، جبکہ امن وامان برقراررکھنا انتظامیہ کاکام ہے، لہذاعدالت کسی بھی طریقہ سے ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، اس سے پہلے جو حکومت تھی اس وقت بھی عدالت نے کوئی مداخلت نہیں کی، اگر کوئی پُرامن احتجاج کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انتظامیہ سے اجازت لے اگر اجازت لے کر وہ کوئی بھی احتجاج یا اپنی ریلی نکالنا چاہتا ہے ، اگراس میں انتظامیہ اجازت نہیں دیتی تو پھر عدالت سے رجوع کیا جاسکتاہے، اب تک جو لگتا ہے جو درخواست گزار ہے وہ متاثرہ فریق نہیں ہے، لہذا ان کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اگر ریلی نکالنی ہے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں۔عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے یا ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا۔