سینیٹ کو حکومتی اتحادیوں وحزب اختلاف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کی نامزدگی کا اختیار دینے کا مطالبہ کردیا


اسلام آباد (صباح نیوز) سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں اورر حزب اختلاف نے مشترکہ طورپر ایوان بالا سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ نامزد کرنے کا اختیار دینے کا مطالبہ کردیا اس  معاملے پر سینیٹ میں (پیرکو ) قراردادپیش کی جائے گی، سابق چیئرمین سینٹ رضاربانی اور قائدر حزب اختلاف شہزادوسیم سمیت بیس ارکان سینیٹ محرکین میں شامل ہیں سینیٹ اور قومی اسمبلی  سے نصف نصف  مدت کے لئے چیئرمین پی اے سی کی یکساں نامزدگی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ا

س خبررساں ادارے کو متعلقہ  قرارداد کے دستیاب مسودے کے مطابق محرکین نے سینیٹ کو پی اے سی کی سربراہی کی نامزدگی کا اختیار دینے کے لئے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین پارلیمنٹ کے دو مساوی ایوانوں کی تشکیل کرتا ہے، سینیٹ وفاق کی اکائیوں کو مساوی اور مناسب نمائندگی فراہم کرتا ہے اور صوبوں اور قومی اسمبلی کے درمیان برابری پیدا کرتا ہے۔آبادی کی بنیاد پر نشستیں مختص کی جاتی  ہیں لہذا آئین سینیٹ کے لئے بھی اکثریت کا اصول فراہم کرتا ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ آئین پارلیمنٹ کو حکومتی اخراجات میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری خزانے پر پارلیمانی نگرانی کا اختیار دیتا ہے۔ اس مقصد کے لئے پبلک اکائونٹس کمیٹی جو کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل  ہے وفاقی اکاؤنٹس سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اور دیگر متعلقہ معاملات کی جانچ کرکے سرکاری خزانے کی جانچ پڑتال اور نگرانی کو موثر طریقے سے انجام دیتی ہے ۔

آئینی سکیم کے مطابق سینیٹ قومی اسمبلی میں بڑی آبادی والے صوبوں  کی بالادستی  کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کے خدشات کو ختم کرکے قومی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔  لہذا سینیٹ کی اس حیثیت اور  احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے  ہوئے سینیٹ سے اراکین کو بھی  پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرپرسن شپ کا موقع فراہم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں  کو پبلک اکانٹس کمیٹی کی سربراہی کا اختیار ملنے سے  اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک کا کوئی بھی حصہ ریاستی اداروں میں مناسب نمائندگی سے محروم نہیں ہے  اورکسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہورہا ہے ۔ سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف نے مشترکہ طورپر مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ کو  پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرپرسن شپ کا اختیار دیا جائے اور اس کے لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کے درمیان اس کی نصف مدت یعنی بالترتیب ڈھائی سال کی مدت  کا تعین کیا جائے ۔

قراردادکے  محرکین میں اپوزیشن سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم حکومتی اتحادیوں سابق چئیرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی،جے یو آئی کے  رہنما  سینیٹر  مولانا عبدالغفور حیدری،نیشنل پارٹی کے رہنماسینیٹر محمدطاہر بزنجو، این پی کے رہنما سینیٹر  ہدایت اللہ خان، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر سرفراز احمد بگٹی،سینیٹر منظور احمد، سینیٹر  نصیب اللہ بازئی، سینیٹر محمد عبدالقادر، سینیٹر ڈاکٹرزرقا ، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، دلاور خان، ،سینیٹر  ثنا جمالی،سینیٹر  انوار الحق کاکڑ،سینیٹر  تاج حیدر،سینیٹر  جام مہتاب حسین ڈھر،  سینیٹر محمداعظم خان سواتی، سینیٹر ذیشان خان زادہ اور سینیٹر دنیش کمارشامل ہیں قراردادکل نجی کاروائی کے موقع پر ایوان میں پیش ہوگئی  ۔جب کہ سپریم کورٹ/ہائی کورٹس میں  بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات کی وجوہات اور نمٹانے سے متعلق قرارداد بھی ایجنڈے میں شامل ہے  مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے معاملات کو جلد نمٹانے کے لیے اقدامات کئے جائیں،

قراردادکی محرک پی پی پی کی سینیٹر رخسانہ زبیری ہیں ۔ سینیٹر تاج حیدر اور سینٹر سلیم مانڈوی کی طرف سے  نجی شعبہ کو بجلی کے منصوبے لگانے کی اجازت دینے کی قرارداد پیش کی جائے گی جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران اور بجلی کے بلند نرخوں کی وجہ سیگھریلو، تجارتی اور صنعتی صارفین پر بھاری بوجھ  بڑھ رہا ہے ۔لہذا یہ ایوان تجویز کرتا ہے کہ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور پرائیویٹ سیکٹر کو کم از کم تیس میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے اپنے انرجی پارکس لگانے کی اجازت دے۔ مذکورہ انرجی پارکس کو پہلے سے طے شدہ ٹیرف پر صارفین کو بجلی فروخت کرنے کا اختیارہوگا اسی طرح گھریلو، تجارتی اور صنعتی صارفین کے لئے  ڈسٹری بیوشن گرڈز کو قائم کرسکیں گے ۔