عربی کے ریسرچ اسکالر جناب نعمان بدر فلاحی نے علی گڑھ میں پروفیسر سید محمد سلیم کے زمانہ طالبِ علمی کا تفصیل سے ذکر کیا جنہوں نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ میں نے ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔ اسی سال قمر الدین خان نے بھی وہاں داخلہ لے لیا۔ دو سال تک ہم ساتھ رہے، انہوں نے مگر بعض وجوہ کی بنا پر ڈی اے وی کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ پھر مدرس الاصلاح سرائے میر میں عربی کی تعلیم حاصل کی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ جماعتِ اسلامی کے کارکن بن گئے اور پہلے ناظمِ تنظیم مقرر ہوئے۔ پھر مولانا منظور نعمانی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہو گئے، مگر اس کی وجہ نہیں بتائی۔ ہمیں اِس علیحدگی کی تفصیلات سید ابوالاعلی مودودی کی صاحبزادی سیدہ حمیرا مودودی کی تصنیف شجرہائے سایہ دار میں ملتی ہیں۔ اس میں ایسے واقعات بھی درج ہیں جو مولانا مودودی کی شخصیت کا گہرائی سے احاطہ کرتے ہیں۔ سیدہ حمیرا مودودی نے اپنے والد محترم کی تعلیم کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ 1916 کی بات ہے کہ ابا جان نے میٹرک کا امتحان پاس کر کے حیدرآباد دکن کے دارالعلوم کی انٹرمیڈیٹ کلاس میں داخلہ لے لیا۔اِس داخلے پر ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ہمارے دادا جان سید احمد حسن پر فالج کا حملہ ہوا۔ یہ خبر سن کر اباجان اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ بھوپال چلے گئے تاکہ اپنے والد کی دن رات دیکھ بھال کر سکیں۔ اِس طرح ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1918 میں جب دادا جان کی طبیعت ذرا سنبھلی، تو بڑے بھائی ابوالخیر صاحب کے ہمراہ تین سو کلومیٹر دور بجنور کے اخبار مدینہ میں ملازمت اختیار کی۔ ابھی ڈیڑھ ماہ ہی گزرا تھا کہ والد صاحب کی طبیعت میں ناہمواری کی خبر سنی، تو فورا کام چھوڑ کر واپس بھوپال آ گئے۔ اسی سال اعظم گڑھ کے نہایت معروف رسالے معارف میں ابا جان کا پہلا مضمون برق یا کہر با شائع ہوا۔ اس رسالے کے مدیر سید سلیمان ندوی تھے۔ 1919 کے وسط میں دادا جان کی طبیعت سنبھل گئی، تو جبل پور کے اخبار تاج میں ادارتی ذمے داری ادا کرنے لگے۔ یہاں بڑے بھائی کے ساتھ کام کرتے چند ماہ گزرے تھے کہ اخبار کے مالک تاج الدین گرفتار ہو گئے جن کا نام بطور مدیر شائع ہوتا تھا۔ اباجان کو سخت قلق ہوا کہ مضمون لکھا تو میں نے تھا، مگر گرفتار وہ ہو گئے۔ انہوں نے تب اِس اصولی بات پر ملازمت چھوڑ دی۔ اباجان کے الفاظ ہیں مجھے اس بچنے کی کوئی خوشی نہ تھی اور آئندہ کے لیے میں نے عہد کر لیا کہ مدیروں کی ذمے داری پر اخبارنویسی نہیں کروں گا۔ وہ رقم طراز ہیں کہ 23 دسمبر 1926 کو ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔ شدھی تحریک کا بانی سوامی شردھانند ایک مسلمان عبدالرشید کے ہاتھوں قتل ہوا جس پر نسل پرست کانگریسی مہاسبھائی ہندووں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ اسلام خونریزی سکھاتا ہے۔ گاندھی جی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔ وہ اپنے والد محترم کے یہ الفاظ نقل کرتی ہیں، مولانا محمد علی جوہر نے ان بہتان طرازیوں سے تنگ آ کر جامع مسجد دہلی میں جمعے کے خطبے میں آب دیدہ ہوتے ہوئے کہا کاش! کوئی اللہ کا بندہ اِن الزامات کے جواب میں اسلام کے صحیح تصورِ جہاد پر ایک مبسوط کتاب لکھے۔ خطبہ سننے والوں میں ایک میں بھی تھا۔ میں وہاں سے اٹھا، تو یہ سوچتے ہوئے جامع مسجد کی سیڑھیاں اترنے لگا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں۔ تب 1927 کے اوائل میں اباجان نے الجہاد فی الاسلام کے حوالے سے اخبار الجمعیتہ میں قسط وار لکھنا شروع کیا۔ ان کی عمر اس وقت صرف 24 برس تھی جب ان کی یہ معرک الآرا کتاب شائع ہوئی۔ اسے پڑھ کر علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اِس کا مطالعہ کرے۔ شجرہائے سایہ دار میں سیدہ حمیرا لکھتی ہیں کہ یہ بیمثل کتاب شاعر اور مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال کے ساتھ اباجان کے تعلق کا باعث بنی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اباجان کو لاہور بلا لیا تاکہ پوری یکسوئی کے ساتھ جہاد اور اِجتہاد پر تحقیقی کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اباجان 18 مارچ 1938 کو دکن سے ہجرت کر کے دارالسلام پٹھان کوٹ آ گئے۔ وہاں شہروں جیسی کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی۔ اباجان نے وہاں آمدورفت کے لیے تانگہ خریدا جسے ایک ترکستانی کوچوان تختہ بیگ چلاتے تھے۔ دہلی سے ایک ماہر باورچی لے آئے جب کہ ایک آیا بچوں کی دیکھ بھال میں اماں جان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ یہ دونوں ملازم بیحد جاںنثار، شریف النفس اور خیرخواہ تھے۔ باورچی اور کوچوان کبھی گھر کے اندر نہیں آئے تھے۔ جماعتِ اسلامی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے مولانا منظور نعمانی اور مولانا محمد جعفر پھلواری صاحب تشریف لائے اور چند ہفتوں کے لیے قیام پذیر ہوئے۔ اباجان نے انہیں قمرالدین خان کے ہمراہ گھر پر مدعو کیا اور اماں جان کو ہدایت کی کہ تانبے کی جن پلیٹوں میں ہم کھانا کھاتے ہیں، مہمانوں کے لیے بھی وہی برتن دسترخوان پر چن دیے جائیں اور کھانا بھی معمول کے مطابق ہو۔ ہماری اماں جان کو یہ خوشی تھی کہ علما گھر آ رہے ہیں، تو ان کی اچھی خاطر مدارت کرنی چاہیے، چنانچہ انہوں نے اپنے جہیز کا ڈنر سیٹ نکالا۔ اچھا کھانا پکایا گیا۔ مہمان تشریف لائے، کھانا کھایا اور چند روز بعد بستی دارالسلام میں کھسر پھسر شروع ہو گئی جس کا انجام جماعتِ اسلامی سے ان بزرگوں کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ ان حضرات نے ملنے جلنے والوں سے کہا کہ مولانا مودودی دین داری کے پردے میں ایک دنیادار آدمی ہیں۔ ان کے گھر میں خانساماں کھانا پکاتا ہے، بچے آیا پالتی ہے اور مولانا کے بچوں کو بچہ گاڑی میں سیر کے لیے لے جاتی ہے۔ مولانا کا پاندان چاندی کا بنا ہے۔ جس ڈبیا میں پان رکھے جاتے ہیں، وہ بھی چاندی کی ہے، حالانکہ وہ چاندی کی نہیں تانبے کی تھی جس پر قلعی کی گئی تھی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ