آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ہم کلام ہونے کے لمحات۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کی پیاری پیاری باتیں سننے کا دن۔ بہت خوشی ہوتی ہے کہ آپ دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔ خوب محفل جمتی ہے۔ اتنی دیر موبائل فون کی اسکرین بند رہتی ہے۔ ہفتے بھر ہماری اولادیں بہت کچھ دیکھتی ہیں۔ سنتی ہیں۔ وہ بے تاب ہوتی ہیں۔ اپنے بڑوں سے اپنے مشاہدات پر بات کرنے کے لیے۔ آپ بھی بے چین ہوتے ہیں۔ ان کی نئی نئی انوکھی پھلجھڑیاں دیکھنے کے لیے۔
اطلاعات کی یلغار ہے۔ تجزیوں کی بوچھاڑ ہے۔ برسوں سے ہم سنتے آرہے تھے کہ اگر آزادیٔ اظہار ہوگی۔ مکالمہ ہوگا تو مسائل از خود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ معلوم نہیں کہ ڈور کہاں سے الجھی ہے۔ سرا نہیں مل رہا ہے۔ منتخب قیادتیں بھی موجود ہیں۔ مقتدر قوتیں بھی۔ عدالتیں بھی آزاد ہیں۔ پارلیمنٹ بالادست ہے۔ قومی اسمبلی۔ سینیٹ کی بالادستی کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ارکان پارلیمنٹ کو شاید اپنی مقتدری کا یقین نہیں ہے۔
سیلاب 2022 نے ہمارے سرکاری بندوبست کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ وفاقی ڈھانچہ بھی مسائل کے سامنے عجز کا شکار ہوگیا ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی۔ سندھ۔ بلوچستان۔ کے پی کے۔ پنجاب۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر سب کا ایک جیسا حال رہا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ 1985 سے شراکت اقتدار نے منتخب ارکان سے از خود کچھ کرنے کی امنگ چھین لی ہے۔ مقتدر طاقتوں پر انحصار بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں پہل پر برا نہ مان جائیں۔ آئندہ اقتدار میں حصّہ نہ لینے دیا جائے۔
روشن پہلو یہ رہا ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں غیر سیاسی اداروں اور غیر سیاسی تنظیموں نے اپنے طور پر سیلاب زدگان کی بڑھ چڑھ کر خدمت کی ہے۔ بڑی تنظیموں کی خبریں۔ تصویریں تو دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی اپنے طور پر بعض مخصوص علاقوں میں سرگرم رہی ہیں۔ سماجی پیش رفت کے حوالے سے ایک حوصلہ افزا مشاہدہ یہ ہے کہ شہروں کے کارپوریٹ شعبے اور دیہی علاقوں کے روشن خیال زمینداروں کے درمیان گہرا اشتیاق دیکھنے میں آیا ہے جس پر یہ مصرع بار بار دہرارہا ہوں۔
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
ذاتی دوستیاں باقاعدہ منظم اشتراک میں ڈھل گئی ہیں۔ پاکستان آئی بینک سوسائٹی کے قاضی ساجد علی نے بتایا کہ انہوں نے سندھ کی ممتاز شخصیت مبین جمانی کے تعاون سے خیرپور میں میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا۔ پانچ ہزار سے زیادہ مریضوں کا معائنہ کیا۔ دوائیں تقسیم کیں۔ اس سوسائٹی نے لاکھڑا میں بھی ایسی خدمات انجام دی ہیں۔ اس طرح کے بہت سے اداروں نے جنوبی پنجاب۔ بلوچستان میں بھی خدمت خلق کی ہے۔ بڑے میڈیا نے ایسی کوششوں کا احاطہ نہیں کیا ہے۔ زیادہ گلے شکوے ہی نمایاں کیے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی دیہی علاقوں میں بعض دردمند شخصیتوں کے اشتراک سے ایسے طبی کیمپ لگائے ہیں ۔ زراعت میں جدید انداز اختیار کرنے۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے۔ میرپور خاص کے آم کو دنیا بھر میں روشناس کرانے والے رفیع کاچیلو کے صاحبزادے بیرون ملک رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں اطلاع ملی کہ انہوں نے وطن واپس آکر علاقے کے سیلاب زدگان کے لیے خود ایک شہر خیموں کا آباد کیا۔ وڈیروں میں بعض خوف خدا رکھنے والے اور بالخصوص دوسرے علاقوں کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دردمند ہوجانے والے زمینداروں نے ایسے انتظامات کیے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی اپنے ہاریوں کے ساتھ گھٹنے گھٹنے پانیوں میں چلنے والی تصویر آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ وہ فیصل ایدھی کے ساتھ بھی سرگرم رہے۔
ہمدرد مجلس شوریٰ کی اس بار شام کا موضوع تھا۔’’ ذمے دار صحافت۔ اخلاقی اقدار۔‘‘ مہمان مقرر کی حیثیت سے میں نے اپنے 60 سالہ تجربات کی روشنی میں صحافت کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ لیتھو طباعت سے کاغذ کے بغیر نیو زروم تک کے سفر کی مختصر کہانی بھی سنائی۔ ٹی وی چینلوں کے بعد صحافت میں جو تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کا ذکر بھی رہا۔ یہ داستاں پھر کبھی سہی۔لیکن خوشی ہوئی کہ ہمدرد فاؤنڈیشن نے بھی
اندرون سندھ اور بلوچستان کے لس بیلہ ضلع میں میڈیکل کیمپ بھی منعقد کیے۔ خشک راشن بھی تقسیم کیا۔ اس کی ویڈیو بھی شرکا کو دکھائی گئی۔ یقیناً بہت سی تنظیموں اور اداروں نے اپنے علاقوں میں نیک نیتی سے خدمات انجام دی ہیں۔ ستائش اور صلے کی تمنّا نہیں کی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں امید کرنی چاہئے کہ حالات بہتر ہوں گے۔ اچھے دن بھی آئیں گے۔
اب تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ ہمارے مجبور۔ سیلاب زدگان اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ انہیں اپنے در و دیوار دوبارہ کھڑے کرنے ہیں۔ چھتیں ڈالنا ہیں۔ پھر اگلی فصل کی بھی فکر کرنا ہے۔ ہم شہروں والے جو کھانا کھاتے ہیں۔ جو لباس پہنتے ہیں۔ جو چائے پیتے ہیں۔ بسکٹ نوش کرتے ہیں۔ ان سب کا خام مال ان علاقوں سے ہی آتا ہے جو سیلاب میں ڈوبے ہیں اور ان کے دست بازو ہی اناج پیدا کرتے ہیں۔ بکریاں گائے بھینسیں پالتے ہیں۔ کپاس کاشت کرتے ہیں۔ ہمیں خبردار ہونا چاہئے کہ ایک فصل ڈوب چکی۔ دوسری فصل کی کاشت ابھی نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے ضروری اشیا کی قلت ہوگی۔ ذخیرہ اندوز فائدہ اٹھائیں گے۔ افسر شاہی بھی ان کی حصّے دار ہوگی۔ سندھ۔ بلوچستان۔ پنجاب۔ خیبرپختونخوا میں شہری دیہی کشمکش بڑھے گی۔ الزامات کی یلغار ہو گی۔
گندم سمیت بہت سی اشیائے ضروریہ درآمد کرنا ہوں گی۔ ہمارا قیمتی زرمبادلہ اس پر صَرف ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں سے پارلیمنٹ سے کسی مبسوط لائحہ عمل کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے قانون سازی کررہے ہیں۔ کریں گے۔ 22 کروڑ عوام کی ضروریات کیلئے پروگرام بنانا ان کی ترجیح نہیں ہوگی۔ اس لئے معاشرے کو خود حرکت میں آنا ہوگا۔ سول سوسائٹی اپنے علاقوں کی یونیورسٹیوں، کارپوریٹ اداروں سے فلاحی تنظیموں سے اشتراک کرکے اپنے علاقوں کے نقصانات کی جائزہ رپورٹیں مرتب کریں۔ مستقبل کے منصوبے حقیقی اعداد و شُمار کی بنیاد پر ترتیب دیں۔ ان دستاویزوں کی روشنی میں آپ اپنے علاقے کے ایم این اے ۔ایم پی اے۔ سینیٹرز پر دباؤ ڈالیں۔ اخبارات کو خط لکھیں۔ ٹی وی چینلوں سے رابطہ کریں۔ اپنے علاقوں میں ان نقصانات کے بینر اور پینا فلیکس آویزاں کریں۔ مایوس نہ ہوں۔ ہر قوم کو ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے۔ جاپان۔ جنوبی کوریا۔ جرمنی۔ روانڈا۔ کو ان سے کہیں زیادہ سنگین بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ مگر اب ان کی خوشحالی اور استحکام قابل رشک ہے۔ دوسری قومیں جو کرسکتی ہیں ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کردیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ