وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی پہلی اور بھرپور پریس کانفرنس میں عمران خان سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ عمران خان سے قبل از وقت انتخابات، آرمی چیف کی تعیناتی سمیت کسی بھی معاملے پر بات نہیں ہو سکتی، اس لیے عمران خان اگر قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان کی کوئی شرط نہیں مانی جا سکتی۔
وہ خود ہی گئے ہیں خود ہی آ جائیں۔وزیراعظم نے سائفر کی بھی کسی قسم کی تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اعلامیہ بھی آچکا ہے، اس لیے مزید کسی بھی قسم کی تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس پس منظر میں جو لوگ عمران خان اور حکومت کے درمیان کسی بھی قسم کی بیک چینل ڈپلومیسی کی بات کر رہے تھے شہباز شریف نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
شہباز شریف کی پریس کانفرنس اس حوالے سے منفرد تھی کہ اس میں تمام میڈیا اداروں کے نمایندوں کو مدعو کیا گیا تھا حالانکہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی صرف من پسند صحافیوں کے ساتھ ہی میڈیا ٹاک کرتے رہے ہیں۔ ویسے وہ تو اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں، اس لیے ان سے بہت سے سوال ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ خود سے سوالات کا موقع ہی نہیں دیتے۔ لیکن شہباز شریف نے یہ روایت توڑ دی ہے۔ انھوں نے سب کو سوال کرنے کا موقع دیا ہے۔
ہر سوال کا جواب دیا ہے۔ میری رائے میں خود کو میڈیا کے سامنے ہر سوال کے لیے پیش کرنا بھی احتساب کے لیے پیش کرنے کی ایک شکل ہے۔ آپ خود کو ہر سوال کے جواب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ آپ خود کو جوابدہ مانتے ہیں۔ یہی آزاد میڈیا کی پہلی نشانی ہے کہ اسے ارباب اقتدار سے ہر سوال کرنے کی اجازت ہو اور یہی جمہوریت ہے کہ صاحب اقتدار خود کو ہر سوال کا جواب دینے کا پابند سمجھے۔ اس لیے شہباز شریف نے ایک اچھی روایت کو دوبارہ زندہ کیا ہے، انھیں اسے قائم رکھنا چاہیے۔
پریس کانفرنس میں شہباز شریف بہت پر اعتماد نظر آئے۔ اس سے پہلے انھوں نے قوم سے جو خطاب کیے تھے ان کے بارے میں ایک عمومی رائے یہی بنی تھی کہ وہ پراعتماد نظر نہیں آئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں احساس ہے کہ ان کی حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ ڈینجر زون سے باہر نکل آئی ہے، وہ حکومت کی مدت پوری کرنے کے حوالے سے بھی پر عزم دکھائی دیے۔
اس پریس کانفرنس سے یہ پیغام بھی ملا ہے کہ عمران خان نے حکومت پر جو دباؤ بنایا ہوا تھا، وہ ختم ہو گیا ہے۔ عمران خان کو اس پریس کانفرنس کو بار بار دیکھ کر سمجھنا ہوگا کہ ان کا حکومت پر دباؤ کمزور ہونے لگا ہے، اس لیے انھیں بھی حکمت عملی بدلنا ہوگی۔
شہباز شریف نے آرمی چیف کے معاملے پر بھی حکومتی پالیسی کا ابہام ختم کر دیا ہے۔ اس سوال کے جواب سے صاف ظاہر ہے کہ آرمی چیف لگانے کا اختیار شہباز شریف بطور وزیراعظم بھر پور استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں نواز شریف سے مشاورت پر بھی کوئی دفاعی موقف نہیں لیا ہے۔
بلکہ بر ملا کہا ہے کہ وہ میرے قائد ہیں، میں ہر معاملے پر ان سے مشاورت کرتا ہوں۔اسحاق ڈ ار کی آمد کے حوالے سے بھی سوال ہوا لیکن شہباز شریف نے محتاط جواب ہی دیے۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ مفتاح اسماعیل کے خلاف کوئی بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ انھوں نے مفتاح اسماعیل کی تعریف ہی کی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسحاق ڈار کے آنے سے شہباز شریف مضبوط ہوئے ہیں۔
جن لوگون کی رائے ہے کہ اسحاق ڈار کے آنے سے شہباز شریف کمزور ہوئے شاید وہ غلط ہیں۔ مفتاح اسماعیل کی وجہ سے شہباز شریف غیرضروری سیاسی دباؤ میں تھے۔ یہ دباؤ ان کی اپنی جماعت سے زیادہ تھا جس کو اپوزیشن بھی استعمال کرتی تھی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسحاق ڈار کے آنے سے شہباز شریف پر سے وہ غیرضروری سیاسی دباؤ ختم ہو جائے گا اور وہ حکومتی امور پر زیادہ توجہ دے سکیں گے۔شاید اسی لیے شہباز شریف اپنی پریس کانفرنس میں کافی مطمئن بھی نظر آئے۔
ان کے جوابوں میں طنزو مزاح بھی تھا۔ ان کی حس مزاح بھی ہمیں کافی عرصہ بعد واپس نظر آئی ہے۔ وہ سوال کے جواب میں سوال کر رہے تھے، سخت سوالوں پر بھی مسکرا رہے تھے۔ مجھے لگا شہباز شریف ایک خاص دباؤ سے نکل آئے ہیں جو ان کے چہرے سے نظر آرہا تھا۔
اسحاق ڈار شہباز شریف کے مدمقابل نہیں ہوں گے۔ وہ سینیٹ کے رکن ہیں اس لیے وزیراعظم بن ہی نہیں سکتے۔ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ ڈفیکٹو وزیراعظم ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں وہ شہباز شریف کے لیے چیلنج نہیں ہوں گے بلکہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔
ان کے کام بھی شہباز شریف کے لیے کریڈٹ کا ہی باعث ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی اب تنقید ختم ہو جائے گی۔ ویسے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر لوگ جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے سب سے بڑے وکیل تھے۔ وہ پارٹی میں شہباز شریف کے سب سے بڑے حامی ہیں اور مزاحمت کو مفاہمت میں لانے کے لیے شہباز شریف کو اسحاق ڈار کی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے اسحاق ڈار کے آنے سے شہباز شریف کمزور نہیں مضبوط ہوئے ہیں۔
آڈیو لیکس پر بھی شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں دو ٹوک موقف دیا ہے کہ وہ اس پر تحقیقات چاہتے ہیں اور ایک اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی بنا رہے ہیں۔ ایک وزیراعظم اس وقت اس سے زیادہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔
انھوں نے آڈیو کی گفتگو کی بالواسطہ تصدیق کی کہ میں اس میں کون سا کوئی غلط کام کہہ رہا ہوں یا کر رہا ہوں۔ انھوں نے یہ نہیں کہا یہ غلط ہے، پہلے اس کا فرانزک کرایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں انھوں نے بحث کو سمیٹ دیا ہے۔ اب صرف یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ یہ آڈیو بنی کیسی ہیں۔ کس نے ریکارڈ کی ہیں، کیسے ریکارڈ ہوئی ہیں؟ اس کی انکوائری ہی ہو سکتی ہے اور امید ہی کی جا سکتی ہے کہ حقائق عوام کے سامنے آئیں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس