آج کل بہت کم لوگ عبدالحفیظ کاردار کے نام سے واقف ہوں گے۔ کاردار کا تعلق لاہور سے تھا۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ آزادی سے پہلے، متحدہ ہندوستان کی طرف سے تین ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان بنے۔دنیا کے بہت کم کھلاڑیوں کو یہ موقع نصیب ہوا کہ انہوں نے کرکٹ میں دو مختلف ملکوں کی نمائندگی کی۔ 1952 میں ہندوستان کے خلاف لکھنو اور 1954 میں انگلستان کے اولین دورے میں پاکستان نے اوول ٹیسٹ میچ جیتا۔ بطور کپتان ان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم نے ہر ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کی ٹیم کو شکست دی۔ 1958 میں ویسٹ انڈیز میں حنیف محمد نے 337 رنز بنائے تو یہ کاردار کا آخری دورہ تھا۔ کرکٹ اور سیاست کے موضوع پر کاردار نے گیارہ کتابیں تحریر کیں۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
وہ آکسفورڈ کے زمانہ طالب علمی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہم عصر تھے۔ بھٹو کو کرکٹ سے لگاؤ تھا اور یہ باہمی دلچسپی ان کے تعلقات کی بنیاد بنی۔ بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کا الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ انہیں محکمہ خوراک کی وزارت کے علاوہ، پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سونپی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں اور دوسرے صنعتی اداروں کو حکومتی تحویل میں لیا تو عبدالحفیظ کاردار کو اِس تبدیلی میں، کھیلوں کی نشوونما اور ترویج کا موقع نظر آیا۔ ان کی تجویز پر حکومت پاکستان نے تمام بینکوں اور بڑے سرکاری اداروں کے سربراہان کو حکم دیا کہ وہ نہ صرف کرکٹ بلکہ ہاکی، فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال ، ٹیبل ٹینس کے قومی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے ہر کھیل کی علیحدہ ٹیم تیار کریں۔
ان دنوں زیادہ تر کھلاڑیوں کی صلاحیت، تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتی تھی۔ اسکولوں اور کالجوں کے درمیان باہمی مقابلے ہوتے اور قومی سطح پر یونیورسٹیوں کی مشترکہ ٹیمیں، کرکٹ کے علاوہ دوسرے قومی ٹورنامنٹس میں بھی حصہ لیتیں۔ مگر اہم بات یہ تھی کہ کھیلوں میں اعلی کارکردگی دکھانے پر بہت کم کھلاڑیوں کے لیے ایسے روزگار کا حصول ممکن ہوتا جو انہیں فکرِ معاش سے آزاد کر دے۔ یہی وجہ تھی کہ والدین بچوں کو کھیلوں کے میدان سے دور رہنے اور پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کرتے۔ صرف پی آئی اے، اعلی تعلیم یافتہ کھلاڑیوں کو ایک باعزت نوکری اور مناسب تنخواہ فراہم کرتی۔ دوسرے اداروں جیسے ریلوے، واپڈا، پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت پر بہت کم معاوضہ ملتا۔
اِس ضمن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے دو کھلاڑیوں، اقبال قاسم اور عبدالرقیب کا تذکرہ کروں گا۔ دونوں نے،اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر، حبیب بینک میں نوکری حاصل کی۔ بینکنگ کی باقاعدہ ٹریننگ کے بعد، کسی دوسرے بینکار کی طرح صبح سے شام تک ڈیوٹی دیتے۔ کھیلنے کے لیے بہت کم وقت ملتا، مگر وہ اتنے باصلاحیت تھے کہ قائد اعظم ٹرافی کے میچ کھیلنے کے لیے کراچی کی کرکٹ ٹیم میں منتخب کیے جاتے۔ میچ کے دنوں میں دفتر سے غیر حاضری کے لیے انہیں چھٹیاں قربان کرنا پڑتیں۔ پھر حکومت نے ہدایت جاری کی کہ قومی مقابلوں میں حصہ لینے کا دورانیہ، آن ڈیوٹی تصور کیا جائے۔
اداروں کی ٹیموں کو قومی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت ملی تو کھلاڑیوں کے لیے یہ ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ وہ غریب اور نادار نوجوان کھلاڑی جن کے والدین انہیں کھیل سے روکتے تھے، یکایک برسرِ روزگار ہو گئے۔ اقبال قاسم اور عبدالرقیب کو بینکاری کی ڈیوٹی سے نجات ملی اور بہت سے دوسرے کھلاڑی جو بی اے کا امتحان پاس کر چکے تھے، بینکوں اور دوسرے اداروں میں افسر بن گئے۔بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ پاکستان کا عظیم اسپنر عبدالقادر اپنے خاندان کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے، تعلیم ادھوری چھوڑ کر دبئی چلا گیا تھا۔ اسے دوستوں نے واپس بلایا اور حبیب بینک نے اسے اسسٹنٹ کی تقرری کا پروانہ تھما دیا۔اگلے ہی برس پاکستان کی نمائندگی کرنے پر اسے آفیسر گریڈ میں ترقی دی گئی۔ اِسی طرح جاوید میاں داد اور دوسرے بہت سے کھلاڑی، اعلی تعلیم کے بغیر ہی مختلف اداروں کی ملازمت سے فیض یاب ہوئے۔ زیادہ فائدہ، ہاکی، فٹ بال اور دوسرے کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو ہوا جو پہلے بہت کم معاوضے پر، ریلوے ، واپڈا، پاکستان آرمی اور محکمہ پولیس کی طرف سے نیشنل چیمپئن شپ میں حصہ لیتے۔ وفاقی حکومت کی نئی پالیسی کے تحت، دیگر کھیلوں سے منسلک کھلاڑیوں کے لیے نہ صرف بینکوں بلکہ بہت سے دوسرے اداروں میں باعزت ملازمت کا انتظام ہوا۔
اِس انقلابی تبدیلی کے کھیلوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کا باقاعدہ جائزہ نہیں لیا گیا، مگر یہ حقیقت ہے کہ نوجوان باصلاحیت کھلاڑی اِس لیے محنت کرنے لگے کہ وہ اپنے کھیل میں بہتری لا کر کسی ادارے میں مستقل ملازمت حاصل کر سکیں۔ عمران خان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانے سے تھا۔ وہ اپنی آپ بیتی میں اِس حوالے سے اپنے بہتر خاندانی پس منظر کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے ہم عصر کھلاڑی اور ٹیم کے کپتان، غیر ملکی ٹیموں سے مقابلہ کرتے ہوئے بہت جلد حوصلہ ہار جاتے تھے۔ عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے بعد کاؤنٹی کرکٹ کھیلی۔ پہلے ووسٹرشائر اور پھر سسیکس کی نمائندگی کرتے رہے۔ 1976 کے دورے اور ورلڈ سیریز کے بعد آسٹریلیا میں عمران خان کا ڈنکا بجا تو انہیں نیو ساؤتھ ویلز کی طرف سے کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا۔پاکستان آنے پر پہلے داؤد ہرکولیس اور پھر پی آئی اے کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ بیرون ملک کرکٹ کا کھیل علاقائی بنیادوں پر استوار تھا۔ پاکستان میں کھیلنے پر ایک بات ان کے ذہن میں بری طرح کھٹکنے لگی۔ بیرونِ ملک، ٹیم اپنے علاقے سے وابستگی کی بنیاد پر تماشائیوں میں مقبولیت حاصل کرتی۔ مقامی مقابلوں میں اسٹیڈیم بھر جاتے تھے مگر پاکستان میں تماشائی، مفت داخلے کے باوجود، کھیل کے میدان سے دور رہتے۔ عمران خان نے اس وقت سے پاکستانی کرکٹ میں اداروں کی بجائے علاقائی کرکٹ کے حق میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے بارہا کرکٹ بورڈ اور حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں بھی کرکٹ کے مقابلوں کو علاقائی وابستگیوں کے حوالے سے استوار کیا جائے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر انہوں نے اداروں کی طرف سے کھیلوں میں نمائندگی ختم کر دی۔اِس اقدام کے مضمرات کا جائزہ آئندہ لیا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ