ٹرانسجینڈر ایکٹ، وفاقی شرعی عدالت میں سینیٹر مشتاق احمد، فرحت اللہ بابرسمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور


  اسلام آباد(صباح نیوز) وفاقی شرعی عدالت نے سینیٹر مشتاق احمدخان، فرحت اللہ بابر ، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں۔

آج وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت نے سینیٹر مشتاق احمد خان ،فرحت اللہ بابر ، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں اور تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کی۔

اوریا مقبول جان نے کہا کہ بل بنتے وقت پوری اسمبلی نے بل کو منظور کیا تھا۔ وکیل وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ وزارتِ انسانی حقوق کا کام صرف عمل کرنا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اصل مسئلہ حقوق کا ہے، جس کے بھی جو حقوق ہیں وہ ملنے چاہئیں، کمیونٹی کو تحفظ اور حق دینا ہی اصل مقصد ہے لیکن کوئی آنکھیں بند کرلے تو وہ نابینا نہیں بن جائے گا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا، بل پر کیا اعتراضات تھے کیا بحث ہوئی عدالت کو بتانا چاہتا ہوں، دو بلز کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا۔سینیٹر مشتاق احمد خان کے وکیل نے گزارشات پیش کیں کہ سینیٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا ہے، کسی کو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

نجی این جی او کے وکیل اور ٹرانسجینڈر ببلی ملک نے کہا کہ ٹرانسجینڈر قانون میں چیزوں کو مکس کردیا گیا ہے، ٹرانسجینڈر دراصل ایک پیدائشی نقص ہے، ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور ہم ٹرانسجینڈر بالکل مختلف ہیں، بہتر ہے کہ عدالت کسی جنس کے ماہر کی معاونت حاصل کرے، فرزانہ باری،فاطمہ احسان سمیت بہت سے جنس کے ماہر موجود ہیں۔

اوریا مقبول جان نے جواب دیا کہ جنسی ماہر صرف دیکھ کر رائے دیتا ہے، ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر جنس کا تعین نہیں ہو سکتا۔ٹرانسجینڈرز نے سوشل میڈیا بحث پر پابندی کی استدعا بھی کی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔