اسلام آباد(صباح نیوز) سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ اور عدلیہ پر دیگر الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میںدائر کردی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین احمد اور ممبر جوڈیشل کمیشن سید حیدر امام رضوی کی جانب سے دائر کی گئی جس میں سیکرٹری قانون اور چاروں محکمہ داخلہ کے سیکرٹریز کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس سے منسوب آڈیو ٹیپ سے تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ بیرونی قوتوں کے دبائو میں ہے، عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے آڈیوجعلی ہے یااصلی، تعین کرنا ضروری ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ آڈیو ٹیپ نے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا ہے اور اس نے عدلیہ کی آزادی پر اہم نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں، آئینی عدالت ہونے کے ناطے عوام کا آزاد، غیر جانبدار عدلیہ پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدلیہ پر الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے، عدلیہ کو اپنے نام کے تحفظ کے لیے آزاد خودمختار کمیشن بنانا چاہئے، اچھی شہرت والے ریٹائرڈجج ،وکیل، صحافی اور سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل آزاد خودمختار کمیشن بنایا جائے، کمیشن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو ٹیپ کی چھان بین کرے جبکہ کمیشن کو عدلیہ پر دیگر الزامات کی چھان بین کا بھی کہا جائے۔
ججز پر الزامات کا سلسلہ پاکستان میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے تاہم حالیہ دور میں اس کا سلسلہ اس وقت زور پکڑ گیا جب 6 جولائی 2019کو پاکستان مسلم لیگ (ن)کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔
اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔