ہمارے حالات سے واقف دنیا اورہمارے لیے سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھائو اب کوئی خبر نہیں یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ایوب خان ، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے توکھل کر سول حکمرانوں و قوم کوانکی اوقات اور اپنی طاقت باور کروائی۔کیانی و راحیل کھل کرسامنے تو نہ آئے،کسی لمحے خود اور بعض اوقات”اپنے طیور”کے ذریعے کہاگیابہت کچھ وہ منوا تے رہے۔ پاشاوکیانی کی مدت ملازمت میں توسیع ، آپریشن ضرب عضب ہویا فوجی عدالتوں کا قیام اور جنرل مشرف کو بیرونِ ملک روانگی کی چھوٹ،دبائو کہاجائے یا ہردوفریقین کی باہمی رضامندی،سول حکمرانوں نے عسکری حکام کے کہے کوسنا ہی نہیں بلکہ مانا بھی۔میمو گیٹ پیپلزپارٹی کے دورمیں بھی ہوا۔شور اس دور میں بھی مچا۔صدرزرداری کے پاس میاں نوازشریف جتنی اکثریت نہ تھی مگر انکو میاں صاحب کی طرح یہ دن دیکھنا نہ پڑے۔پیپلزپارٹی کے ایک وزیراعظم”عدالتی فیصلے”کے نتیجے میں قربان ہوگئے جبکہ دوسرے بمشکل بچ پائے۔موجودہ حکمران طبقے کی طرح اقتدارمیں ہوتے ہوئے صدرزرداری یا انکی جماعت نے اپوزیشن پارٹیوں کی طرح واویلا کیا نہ آہ و بکا بلکہ اقتدار کے ایک ایک دن کو دانتوں سے پکڑ کر گزارا۔
میاں صاحب نے مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے دھرنے کو ناکام بنایا۔ اپنی اس کامیابی سے سیکھنے کی بجائے نواز حکومت کِبر کا شکار ہوگئی۔ مطلب نکلتے ہی اپنے محسنوں کو بھلانا کوئی ن لیگ کے رہنمائوں سے سیکھے۔دھرنے کے دنوں مشکل وقت میں میاں صاحب کے وزیر داخلہ نے خصوصی طیارہ بھیج کر امیرجماعت اسلامی سراج الحق کو کراچی سے اسلام آباد بلواکرمدد حاصل کی۔وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں ایک نہیں دو وفاقی وزراء نے جماعت کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”کاش 2013ء کے انتخابات میں ہم نے آپ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہوتی،آپ اسمبلی میں موجود ہوتے توآپ کی لیاقت سے آج فائدہ اٹھارہے ہوتے۔”
کام نکلا تو آزاد کشمیر کی جماعتوں کی مفاہمت کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو دی گئی دو سیٹوں کے حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی آصف کرمانی نے گائوں دیہات کی روایتی عورتوں کا سا طرزِعمل اختیارکرکے اس سراج الحق کو طعنے مارے جس کا آزادکشمیر کی جماعت سے کوئی تنظیمی تعلق نہ تھا۔امیرجماعت اسلامی سے متعلق قومی اسمبلی کے فلور پربے پرکی اڑاکررہتی کسر خواجہ آصف نے نکال دی۔ میاں صاحب نے جنرل باجوہ کوفوج کاسربراہ مقررکیا، جنرل قمر کو چارج دیکرجنرل راحیل فوج کی سربراہی سے فارغ ہی نہ ہوئے بلکہ”حکومتی منشائ”سے اسلامی افواج کے اتحاد کے سربراہ بن کرسعودی عرب چلے گئے بظاہر سب ٹھیک تھامگر ڈان لیکس کی راکھ میں موجود چنگاری نہ بجھ سکی۔
نوازشریف سپریم کورٹ کے متنازعے فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہی نہیں پارٹی سربراہی سے بھی فارغ ہوگئے۔ لوگوں کی اکثریت اس فیصلے کو منصفانہ تسلیم نہیں کرتی۔ ضمنی انتخاب میں مرکز و پنجاب میں اپنی حکومتیں ہونے کے باوجود ن لیگ نے وہ دیکھا جس کی انکو توقع بھی نہ تھی۔لاہور کی نشست حاصل کرنے سے لیکر پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے ذریعے پارٹی کی دوبارہ سربراہی تک یہ ثابت کرتا ہے کہ ن لیگ کو ابھی تک کوئی توڑ نہ سکا۔ احتساب عدالت میں رینجرز کی موجودگی کامعاملہ ہو یا جنرل کونسل کا کنونشن ، میاں صاحب سمیت وزراء کا لب و لہجہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ حکومت میں نہیں اپوزیشن میں ہیں اور ملکی سیاست نہیں طلباء یونین کی سیاست کر رہے ہیں۔
میاں صاحب نے کہاکہ’’ آج بھی حالات کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو پاکستان ہمیں معاف نہیں کریگا، مشرف ڈکٹیٹر نے میراراستہ روکنے کیلئے کالا قانون بنایا مگرپارلیمنٹ نے کالا قانون اس کے منہ پر دے مارا۔”
درست فرمایا جناب آپ نے مگرجس قوم کواب آپ جگانے کی کوشش فرمارہے ہیں کیاوہ آپ سے سوال کرسکتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ کو ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد کیوں یاد آتا ہے۔
آپ نے ملک کے دولخت ہونے کی بھی بات کی اور ڈکٹیٹروں کاذکر خیر بھی فرمایا۔پاکستان کے درماندہ مگر باشعور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے جلاوطنی کا دور گزارنے کے بعد وعدہ کیاتھا کہ آمر کیخلاف آئین توڑنے پر غداری کامقدمہ قائم کرکے اسے انجام تک پہنچائیں گے۔مقدمہ تو قائم کیامگر جنرل راحیل کی بات مان کر کمزوری کامظاہرہ کس نے کیا؟ آپ نے اس وقت جرات دکھائی ہوتی تو صرف ن لیگ ہی نہیں بہت سی دیگر جماعتیں اور عوام کا جمِ غفیر آپ کی پشت پر ہوتا۔میاں صاحب آپ نے کہاکہ میرے دل میں بہت غصہ ہے، غلط اقدام پرغصہ تو فطری امر ہے مگرمیاں صاحب آپ کو یقینامعلوم ہوگا کہ پیغمبرؐکا فرمان ہے کہ”بہادر وہ نہیں جومقابل کو پچھاڑدے بلکہ بہادر وہ ہے جواپنے غصے پر قابو پالے۔”
آپ بھی اپنے غصے پرقابوپائیے اور اپنے رفقاء کو بھی تنبیہ کریںکہ وہ سنبھل کر چلیں۔غصے سے آپ کی مشکلات میں کمی نہیں اضافہ ہی ہوگا۔احتساب عدالت میں آپ کی پیشی کے موقع پر رینجرزکے طرزِعمل کوکوئی محب وطن پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے نہ حمایت کر سکتا ہے مگر جناب احسن اقبال کایہ فرمانا کہ”رینجرز کی تعیناتی ریاست کے اندر ریاست اور ڈو مور کہنے والوں کو پیغام دیتا ہوں کہ بس بہت ہوچکا اب نو مور نومور” مناسب نہیں۔
احسن اقبال صاحب کاش آپ اور آپ کے قائدجذباتی تقاریر کی بجائے تین سال قبل ترکی میں دیئے گئے اپنے بہی خواہ کے مشورے پرعمل کرتے۔ ترکی کی جس مجلس میں میاں صاحب کو مشورہ دیاگیا تھا اس مجلس میں موجود شخصیت جوکہ اِسوقت خود اہم ذمہ داری پر فائز ہے نے اس قلم کار کو2015ء کے اوائل میں استنبول میں بتایا تھا کہ”میاں صاحب کو کہا گیا کہ وہ ترکی نہیں اپنے ملک کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے عساکر سے معاملہ کریں۔”ترکی والے میاں صاحب کو کھل کر تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ جناب ہم پر نہ کرپشن کا الزام نہ ہم نے اپنی دولت و کاروبار بیرون ترکی پھیلائے ہوئے ہیں۔ان کے اشارے میں بہت اہم مشورہ پنہاں تھا مگر ہم اشارے کم کم ہی سمجھتے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ گزشتہ سال ترکی میں قوم نے کیسے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا۔کاش ہم بھی ترکی سے کچھ سیکھتے۔اتحاد و اتفاق کی قوت سے نومور تو اس وقت امریکہ کو کہنے کی ضرورت تھی مگر نہ جانے وزیر داخلہ نے نومور کس کو کہا؟ اگر توانہی کو کہا جو ہم سمجھ رہے ہیں تو پہلے اپنے گھر کی صفائی جیسے بیانات کی طرح یہ ایک اور جگ ہنسائی ہو گی اس مظلوم قوم کی۔
کورکمانڈرز کے غیرمعمولی اجلاس میں ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجز پر گہراغوض وخوض کیا گیا۔
فوج کے دھیمے مزاج کے سربراہ جناب قمر باجوہ سے کسی کو کوئی رنجش نہیں۔ بیرونی خطرات کے مقابلے اورسول ملٹری تنائو میںکمی کیلئے انہیں کردار ادا کرنا چاہیے ، ملکی صورتحال سے متعلق ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاموش سپاہیوں کے ذریعے جناب عمران وشیخ رشید کوواضح پیغام دیں کہ افواج پاکستان کا اپنا ترجمان ادارہ موجود ہے، ہر دو رہنماء اپنی ذاتی رنجشوں و پوائنٹ سکورنگ فوج کے نام پر کرکے فوج کو متنازعہ نہ بنائیں۔امریکی جنرل جوزف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ دہشت گردوں کے آئی ایس آئی سے روابط ہیں جبکہ امریکی وزیردفاع نے دھمکی دی کہ پاکستان کاغیرنیٹواتحادی کا درجہ ختم کرنے سمیت دیگر آپشنز پرغور ہو رہا ہے۔
دیگر آپشنز کسے معلوم نہیں، ایسی صورتحال میں باہم دست وگریبان ہونا اپنی تباہی کے مترادف ہے۔
جناب چیئرمین سینٹ رضاربانی کے بعد میاں نوازشریف نے بھی بڑے قومی مکالمے کی بات کی ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جناب جنرل اسلم بیگ ، جنرل کیانی اور دیگر سول وفوجی رہنمائوں کو بڑے مکالمے کے لئے آگے بڑھ کراپناکردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم اندرونی وبیرونی چیلنجز پر قابو پاسکیں۔
Load/Hide Comments