عدالت عظمیٰ کے معزز جج جسٹس دوست محمد نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ” خدا کرے حضرت علیؓ کی تلوار ہمارے ملک میں آ جائے اور کرپٹ لوگوں کے بلاامتیاز سر کاٹے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غریب آدمی ہوتا تو کیا عدالتیں اس کو دو سال کی عبوری ضمانت دیتیں؟ ملزم اخلاق بااثر تھا اسی لئے اسے دو سال تک عبوری ضمانتوں پر رکھا گیا“۔بنچ کے دوسرے معزز ر کن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ”نیب کے دانت اور کاٹنے والی چھری کُندھ ہو چکی ہے“۔
واجب الاحترام جج صاحبان کاتبصرہ درحقیقت ماتم ہے عدالتی نظام اور احتساب کے ادارے کی کارکردگی پر۔ قابل احترام جسٹس دوست محمد نے خواہش کااظہارکیاکہ خداکرے حضرت علیؓ کی تلوارپاکستان کو نصیب ہوجائے جو بلاتفریق بددیانت لوگوں کے سرکاٹے۔
اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔
حضور بصد احترام گزارش ہے کہ اس دنیا کو بنانے والے رب نے جو نظام ترتیب دیا اس میں خواہشات نہیں عمل کارگر ہے۔
خالقِ کائنات نے تو کہا کہ”ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکرکرنے والا بنے یاکفرکرنے والا“۔(سورہ الدھر)
”اور دونوں راستے اسے دکھادئیے،وھدیناالنجدین ۔(سورہ البلد)
یعنی اسے اس کی بھلائی اور برائی کی دونوں راہیں دکھادیں۔آپ کا استفہامی تبصرہ تو پکارپکارکرکوئی اور کہانی بیان کررہا ہے کہ غریب آدمی ہوتاتواسکی دوسال تک عبوری ضمانت کوئی عدالت دیتی؟ یقینا ماتحت عدالتوں میں بیٹھی شخصیات میں سے کچھ “چمک” کا شکار ہوئی ہونگی۔؟ چمک کے شکاران لوگوں کوکوئی لگام ڈالے گایا یہ کہانیاں محض شہ سرخیاں بننے کے بعدہوامیں تحلیل ہو جائیں گی؟؟
پانامہ کے مقدمہ کے محرکین جناب عمران و جناب شیخ رشید تو باسٹھ تریسٹھ پر خود پورانہیں اترتے اورمسئلہ صرف امیرجماعت اسلامی سراج الحق کو صادق و امین کہنے سے نہیں بلکہ سراج الحق کے مطالبے پر عمل درآمد کرکے قوم کی امانتوں کو شیرمادر سمجھ کر پی جانے والے ججوں،جرنیلوں ، صحافیوں ، نوکر شاہی اوردیگر بددیانتوں کو کال کوٹھڑیوں میں بند کر کے لوٹی دولت واپس لینے سے حل ہوگا۔وہ دولت جس کی وجہ سے ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم امریکہ و دیگر ممالک کے دستِ نگر بن گئے۔ہم تو عدالتوں کے احترام میں چھاچھ بھی پھونک کر پیتے ہیں مگر حضور سماجی رابطوں کے صفحات پر آج ہر آدمی خود ”مدیرِاعلیٰ“بن کر جو لکھ رہا ہے اس سے ملک ، اداروں اور شخصیات کی کوئی نیک نامی نہیں ہو رہی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور میں توقیر صادق کو اور موجودہ دور میں شرجیل میمن کو بیرون ملک سے واپس لایاجاسکتا ہے تو ایک بڑے مُلزم پرویزمشرف کے حوالے سے قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا ؟ عدلیہ، حکومت کو اور حکومت ، عدلیہ کوکب تک موردِ الزام ٹھراتی رہے گی؟ ملزم پرویزمشرف توسچ بول کرکے انکی بیرون ملک روانگی میں جنرل راحیل نے اصل کرداراداکیا تھا آپ سب کی جان بخشی کرچکے ہیں۔ جب معاملہ بے نقاب ہوچکا تو ملزم پرویزمشرف کے لئے قائم خصوصی عدالت کے اب تک قائم رہنے کا کیا جواز؟ مانا کہ نوازشریف صادق وامین نہیں مگرجناب ”بااثر لوگوں“پر ایوان عدل کا ہتھوڑا نہیں برسے گا تو معززججوں سے متعلق اس پروپیگنڈے کو ہواتوملے گی کہ ”فیصلہ فکسڈ“تھا۔پھرلوگ تویہ بھی کہیں گے کہ صرف نیب ہی کے دانت وچھری کُھنڈی نہیں ہے بلکہ ایساہی معاملہ کسی اور کو بھی درپیش ہے۔
بات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار کی زیربحث ہے، تاریخ کے طالب علم نے تو بابِ علم‘ ابن ابوطالب سے متعلق یہ بھی پڑھا تھا کہ آپؓ نے اپنی گمشدہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور کہا کہ یہ میری ہے،فلاں دن گم ہو گئی تھی،یہودی نے امیر المومنین سیدنا علیؓ کا دعویٰ درست ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی چنانچہ امیر المومنین سیدنا علی ؓاور یہودی عدالت میں پہنچے حضرت علی ؓنے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہودی کے پاس موجود زرہ میری ہے جو گم ہو گئی تھی۔قاضی نے یہودی سے پوچھا کہ آپ نے کچھ کہنا ہے؟یہودی نے کہا کہ میری ملکیت زرہ میرے قبضے میں ہے قاضی نے زرہ دیکھی اور یوں گویاں ہوئے۔اﷲ کی قسم اے امیر المومنین!آپ کا دعویٰ بظاہر بالکل سچ ہے یہ زرہ آپ ہی کی ہو گی لیکن قانون کے تقاضوںکو پورا کرنا آپ پر واجب ہے۔قانون کے مطابق آپ گواہ پیش کریں۔ سیدنا علیؓ نے بطور گواہ اپنے غلام قنبراور دوبیٹوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کوعدالت میں پیش کیا‘انہوں نے آپ کے حق میں گواہی دی۔
قاضی نے کہا کہ میں آپ کے غلام کی گواہی تو قبول کرتا ہوں مگر آپ کے حق میں آپ کے بیٹوں کی گواہی ناقابل قبول ہے، ایک گواہ اور لائیے۔
حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نے عمر بن خطابؓ کو رسول اﷲ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”حسن و حسین شبابِ اہل جنت کے سردارہیں“۔
قاضی شریح نے کہا کہ یہ بات سچ ہے مگر یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں اور شرعاً باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں۔ قاضی نے امیر المومنین سیدناعلی ؓ کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔
یہودی ہکا بکا رہ گیا تعجب سے بولا۔مسلمانوں کا قاضی اپنے حکمران کے خلاف اور میرے حق میں فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیر المومنین نے اس کا فیصلہ بلاچوں و چرا قبول بھی کر لیا۔واللہ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے۔پھر یہودی نے امیر المومنین سیدناعلی ؓکی طرف نگاہ اٹھائی اور بولا۔
امیر المومنین!
آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے یہ زرہ یقینا آپ ہی کی ہے ،فلاں دن یہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیا“۔یہودی اس عادلانہ فیصلے سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا۔
ہم دعوی کرتے ہیں کہ مدینہ کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔ معاف کیجیے گا۔ اسلام کی یہ تعلیمات نہیں جن کو ہم نے اپنے ہاں رواج دے رکھا ہے۔ اسلام کا کلمہ توہم نے بس نمائش کے لئے اپنی پارلیمان پر سجارکھاہے۔
کتنے لوگ جہاں بھوک کے ہاتھوں خودکشیوں کاشکار، کتنی بہنیں اور بیٹیاں جہاں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو ہوکر”بڑوںکے عشرت کدوں“ پر رکھیل بنی بیٹھی ہیں۔کتنی ہیں جو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روز”معززین کے کوٹھوں“پرجعلی قہقے بلندکرکے اپنی عصمتوں کی ”شام غریباں“ مناتی ہیں اورابھی تو کل ہی کی بات ہے کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کےلئے اسلام آباد میںمنعقدہ مظاہرہ میں ایک خاتون بے ہوش ہوکرگر گئی، اسکی بیٹی زرائع ابلاغ کو بتا رہی تھی کہ ”کئی سال بیت گے، ابا لوٹ کے نہیں آئے، اماں جب بھی شدت سے اباکویاد کرتی ہیں ایسے ہی بے ہوش ہوکرگرجاتی ہیں۔“
جی ہاں امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہم نے ”ایسے ہی“ قوم کو ناقابل بیاں درد میں مبتلا کر رکھا ہے۔جن بے وفاﺅں کےلئے ہم نے اپنی ہستی مٹادی، وہ آئے روز ہمیں ”حسنِ کارکردگی“کے تمغے دیتے رہتے ہیں۔
ہم شیرخداکی تلوارکانام تو لیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی نے کہاتھا کہ”ریاست کفر پر قائم رہ سکتی ہے، ظلم پر نہیں ۔“
Load/Hide Comments