راجہ فاروق حیدر ،غیرت مند رہنماءیا غدار؟؟۔۔۔شکیل احمد ترابی


فرمان ربی ہے کہ
”کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جا ﺅ، عدل کرو،وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے“۔ (سورہ المائدہ)
ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں کسی کی محبت میں وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جو انکے ممدوح کےلئے بھی “انکشاف”سے کم نہیں ہوتا۔ دشمنی پر اتر آئیں توخوف خدا سے کوسوں دور جاکھڑے ہوتے ہیں۔ بیان و زبان سے وہ کہہ دیتے ہیں کہ الاامان الحفیظ۔
الزام وتہمت تو ہماری عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ دوسرے پر الزام دھرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کے ہم نے مرنا بھی ہے اور کل اپنے کہے اور کیے سے متعلق جواب بھی دینا ہے۔
بہادرشاہ ظفر نے اس بارے کہا تھا کہ
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
میاں نوازشریف کی یوں وزراتِ عظمی سے فراغت کو پاکستانی قوم کی اکثریت اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی اور لوگوں کا ملکی اداروں پر اعتماد مجروع ہواہے۔
میاں محمدنوازشریف کی عدالت عظمی سے نااہلیت پر ان کے مخالفین پر جوش کہ گویا انھوں نے پانی پت کی جنگ جیت لی ہے اور محبانِ نوازشریف ایسے صدمے کاشکار جیسے آسمان گر گیا ہو۔
محبان و مخالفین میں بیان بازی عروج پرہے، ایسے ماحول میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے محبوب قائد محمد نواز شریف سے مکمل اظہاریکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ وہ نااہلیت کے باوجود کشمیریوں کے نہ صرف ہردلعزیز قائد بلکہ وزیراعظم رہیں گے۔ راجہ فاروق حیدرنے عمران خان کی کثافتی سیاست سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عمران کس منہ سے کہتا ہے کہ وہ علامہ اقبال و قائد اعظم کاپاکستان بنانے جارہاہے۔ فاروق حیدر نے کہا کہ “اگر یہی قائدِ اعظم و علامہ اقبال کا پاکستان ہے تو بحیثیت کشمیری مجھے سوچنا پڑے گاکہ میں کس ملک سے اپنی قسمت جوڑنے جارہاہوں۔”
بعض خبر رساں اداروں و اخبارات نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب فاروق حیدر کی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہ صرف شائع کیا بلکہ سرخیاں جمائی کہ
“بطور کشمیری سوچنا پڑےگا کہ کس ملک کیساتھ الحاق کروں۔”
عموما ًکشمیری قیادت اپنے بیان کشمیر ایڈیشنز میں خود ہی پڑھتی ہے۔شازونازہی کشمیرکے حکمرانوں و سیاستدانوں کے بیانات پاکستان کے قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ اپنے پاس سے الحاق کا لفظ شامل کرکے اخبارات کے مقامی ایڈیشنزکی شہ سرخیوں کی زینت بنایاگیا۔ حسدکی آگ میں مبتلا ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے جنگ گروپ کیخلاف مہم شروع کردی کہ روزنامہ جنگ نے وزیراعظم آزاد کشمیر کا جھوٹا بیان شائع کردیا۔ مذکورہ چینل باربارجنگ گروپ کیخلاف بے پرکی اڑاتارہا۔ حقیقت حال تو یکسر مختلف تھی کہ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ خبر تو تین خبررساں اداروں کی جاری کردہ تھی۔ الحاق و بغاوت والی ایک جیسی خبر کو خبر رساں اداروں اور بعض اخبارات نے اپنے نمائندوں کی کریڈٹ لائن سے شائع کیا۔ ان میں بعض ایسے اخبار بھی شامل تھے جن کو “خاص لوگوں”کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دوعشروں سے میں ایسے خبر رساں اداروں کا مدیرِاعلی ہوں جن کی ترجیح مسئلہ کشمیرکواجاگرکرناہے۔ میں دوجہانوں کے مالک کو گواہ بنا کر اس بات کا اظہارکرتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کواجاگر کرنے کےلئے ہم جو خبریں جاری کرتے ہیں وہ چند اخبار جو ان کو زیادہ بہتر طور پر شائع کرتے ہیں روزنامہ جنگ ان میں سرِفہرست ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات انکو بہت نا گوار گزری ہے
کے مِثل جنگ گروپ و جناب فاروق حیدر کواس بات پرمطعون کیا گیا جس میں ان کا کوئی قصورنہ تھا۔
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سمیت کئی قومی رہنماﺅں کے بیانات آنافاناپرائیویٹ چینلز پر چلنا شروع ہو گے۔ بعض سیاستدانوں نے راجہ فاروق حیدر کو غدار تک کہہ دیا۔ مخصوص گروپوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیرکےخلاف جلسے جلوس شروع کردئیے، یوم سےاہ منائے اور آزادکشمیر اسمبلی میں قرارداد جمع کرادی گئی۔ سیاسی مخاصمت میں یارلوگ بھول گئے کہ راجہ فاروق حیدر کون ہے۔
شیخ رشید تو تذکرے کے ہی قابل نہیں مگر عمران خان نے پریڈگراﺅنڈ میں راجہ فاروق حیدر کے بارے ایسی گھٹیا زبان استعمال کی جو ضبط تحریر میں نہیں لائی جاسکتی۔ عوام کے جمِ غفیر کو دیکھ کر اور”خاص لوگوں” کی جانب سے زیادہ پھوک (ہوا)بھرے جانے سے عمران خان کبر کا شکار ہو گئے ۔ عمران کا لہجہ اور جو بولی انھوں نے بولی ہمارے رب کو پسند نہیں۔ سروری اور کبر تو صرف ایک زاتِ اعلی ہی کوزیباہے جس کو کوئی زوال نہیں۔ شایداسی رب دوجہاں کو یہ تکبر پسند نہ آیا اوراگلے دن ہی عمران خان اپنی جماعت ہی کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی کے ہاتھوں رسوا ہوگئے۔خان صاحب کو کیا معلوم فاروق کی رگوں میں راجہ حیدر خان کا خون دوڑتا ہے ، اس مرد مجاہد راجہ محمد حیدرخان کاجو کشمیر کی تحریکِ آزادی کے ہیرو تھے ۔ جنھوں نے عملی جہاد کرکے کشمیر آزاد کرایا تھا۔
نظریہ الحاق پاکستاں کی علمبردار جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے وہ 1960اور 1963میں دو بار مرکزی صدر منتخب ہوئے۔
راجہ فاروق کی والدہ محترمہ سعیدہ خان کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کی پہلی خاتون رکن اسمبلی تھیں۔ عمران بہت جمہوریت پسند ہونے کا واویلا کرتے ہیں ۔ گزشتہ سال آزاد کشمیر کے انتخابات میں انکی تحریک انصاف تو آزاد کشمیر کے اندر ایک نشست حاصل نہ کر سکی۔ جس نواز شریف کیخلاف وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں پاکستان میں انکی حکومت میں وہ مہاجرین کی بارہ مخصوص نشِستوں میں سے صرف دو حاصل کرسکے۔ وہ جماعت جو بری طرح آزاد کشمیر میں پِٹ گئی وہ کشمیر کے مقبول لیڈر فاروق حیدر کے گھیراﺅ کاکِس منہ سے مطالبہ کرتی ہے۔ عمران نے اگر ایسی کوئی کوشش کی تو انھیں آٹے دال کا بھا ﺅاچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔
1985میں یہ قلم کار آزادکشمیر یونیورسٹی کا طالب علم تھا جب وہ سردارسکندرحیات کی کابینہ میں سینئر وزیر مقرر ہوئے تھے۔ 2009میں بھی وہ آزاد کشمیرکے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت آزاد کشمیر کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس چوہدری ریاض اختر تھے۔موصوف عدالت عالیہ کے چیف جسٹس تھے۔2006میں چیف جسٹس کیساتھ ساتھ وہ آزادکشمیر الیکشن کمیشن کے بھی سربراہ تھے۔ فوجی آمر پرویزمشرف نے آزادکشمیر میں من پسند نتائج کے حصول کےلئے اپنے خاص کارندے سید غضنفرعلی کو انچارج مقرر کیا تھا۔ غضنفرعلی نے جسٹس ریاض سے پیکیج ڈیل کی کہ وہ اگر انکو مطلوبہ نتائج دینگے تو انھیں ہائی کورٹ سے سے بغیر کسی میرٹ کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ اس انتخابی مہم میں ریاض چوہدری ،مشرف کے کارندے غضنفرعلی کیساتھ ہیلی کاپٹروں پر آزاد کشمیر بھر میں گھومتے تھے۔ دونوں کے اکٹھے دوروں کی تصاویر آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ آمر مشرف نہ جانے کِس منہ سے میرٹ کے نظام کی باتیں کرتے ہیں انھوں نے نہ صرف پاکستان کے آئین کو توڑا بلکہ حساس خطے آزادکشمیر میں بے شرمی کی وہ مثالیں قائم کی جو کوئی اورنہ کر سکا۔ جسٹس ریاض نے مطلوبہ نتائج دئیے توانھیں فوری طور پرسپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا’قواعدو ضوابط کو پامال کرکے سنیارٹی کے اصول کو پسِ پشت ڈال کر چند ہفتوں کے بعد جسٹس ریاض چوہدری11جولائی 2006کو چیف جسٹس مقرر کیے گئے ۔ آزاد کشمیرمیں اس اقدام کیخلاف سخت ناراضگی پائی جاتی تھی۔ جسٹس ریاض عدلیہ تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے ہر شعبے میں مداخلت کی۔ فاروق حیدر 2009میں جب مختصر مدت کے لئے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ماضی میں عدلیہ میں سنیارٹی کو ختم کرکے جو بے ضابطگی کی گئی تھی اس کے خاتمے کا اعلان کیا۔ بہت مضبوط”لوگوں “نے فاروق حیدر کو باز رہنے کے مشورے دئیے مگر آہنی اعصاب کے مالک راجہ فاروق حیدرنے کسی کی ایک نہ سنی، انھوں نے کہا کہ “وزارتِ عظمی جاتی ہے تو جائے عدل فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے سے بے عدلی ختم کرکے رہونگا۔”
باآلاخر ریاض چوہدری کو استعفیٰ دیکر گھر جانا پڑا۔
“مضبوط لوگوں “کو مرد ناداں کی یہ ادا پسند نہ آئی اور کچھ ہی عرصہ بعد عدم اعتماد کے زریعے فاروق حیدر کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔
آئین کے مطابق جو فرد الحاق پاکستان کا حلف واقرار نہیں کرتا وہ آزاد کشمیر اسمبلی کا ممبر بن سکتا ہے نہ رہ سکتا ہے۔
پروپیگنڈے کے زور پر فاروق حیدر کو ایک بار پھر تند وتیز آندھیوں کا سامنا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہونگے۔
پروپیگنڈہ کرنے والے رب کا فرمان یاد رکھیں کہ”کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاﺅ عدل کرو،وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ ”
اگر وہ باز نہ آئے تو صرف عمران ہی نہیں شاید کوئی اور بھی رب کی پکڑ میں آجائے۔