پنجاب مخالف بیانیہ کب تک؟…ڈاکٹر صغرا صدف

سوچتی ہوں اس وقت بھی سوشل میڈیا وجود میں آچکا ہوتا تو پاکستان میں آمریت کے نظام کی بنیاد رکھنے اور مستحکم کرنیوالا ایوب خان اپنے صوبے میں تربیلا ڈیم بنا کر شادابی اور توانائی خریدنے کے سفر میں پہلے سے سرسبز وشاداب پنجاب کے دریاؤں کا اتنی بے باکی سے سودا نہ کرتا، شاید کچھ زمین سے محبت کے دعویدار پنجابی بھی بولنے کی جرات کرتے اور آج پنجاب کو پانی کے لالے نہ پڑے ہوتے۔ پاکستان میں کچھ توانا آوازوں نے صرف احتجاج اور نعرے بازی کرنی سیکھی ہے۔ سوچ بچار اور افہام و تفہیم سے معاملات کا حل نکالنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ بھلے خشک سالی کی آکاس بیل سب زمینوں کی ہریالی کو نگل جائے انہوں نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو پروان نہیں چڑھنے دینا، ہندوستان ہمارے دریاؤں کا پانی ڈیموں میں روک کر ہمارا ناطقہ بند کردے، افسوس تک نہیں کرنا مگر پنجاب اپنے حصے کا پانی بھی استعمال کرے تو بین ڈالنے شروع، پنجاب مخالف بیانیہ ریاست کے غیرپنجابی آمرانہ اور سیاسی رہنماؤں کا پیدا کردہ بیانیہ ہے جو اپنے لوگوں کو اپنی لوٹ مار سے بے نیاز رکھنے کیلئے پنجابی استحصال کی من گھڑت کہانیاں سناتے رہے ہیں۔ نفرت کی فصل اگانے والے ہمیشہ سے پنجاب کی طاقت اور ہریالی کیخلاف جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط معلومات کے ذریعے سازشیں کرتے رہے ہیں، پنجابیوں کا قصور یہ کہ وہ محنت مزدوری اور تخلیقی سرگرمیوں میں اتنے مصروف ہیں کہ پلٹ کر جواب دینے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ پنجابی عوام حتیٰ کہ دانشور بھی بڑے بھائی کے خمار میں مدہوش زمین سے بے نیازی برتتے رہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب استحصال بھی سہہ رہا ہے اور گالی و گولی بھی کہا رہا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق پنجاب بجلی بناتا بھی ہے اور مہنگے داموں خریدتا بھی ہے، پنجاب سے گیس بھی نکلتی ہے اور تیل بھی، پنجاب تمام بلز اضافی جرمانوں کیساتھ ادا کرے، اپنے لائق بچے دنیا کی تھکی یونیورسٹیوں میں جا کر ڈگریاں لینے پر مجبور مگر دیگر صوبوں کے طلبا کا استحقاق کہ وہ مفت تعلیم بھی حاصل کریں اور آئے روز ہنگامے بھی۔ منشیات کا زہر، اسلحہ اور سُود کا تحفہ لیکر آنیوالے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پنجاب کے شہروں اور کاروبار پر قابض ہوتے ہوئے پنجابی کیلئے علی الاعلان نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ غیرملکیوں کو پنجاب میں رسائی دینے اور انھیں نہ نکالنے والے سب اس دھرتی کے مجرم ہیں۔ بلوچستان میں کتنے سالوں سے مختلف وفاقی محکموں کے ملازموں اور ترقیاتی منصوبوں میں ڈبل مزدوری کی خواہش میں جانیوالے غریب مزدوروں کی پنجابی شناخت کو جس طرح مجروح کیا گیا اُسکی مثال نہیں ملتی۔وزیرستان اور بلوچستان میں آئے روز پنجابی فوجی جوانوں کی المناک شہادتوں نے ہمارے دل زخمی کر دیئے ہیں اور ہماری فضائیں نوحہ کناں ہیں۔ اسلئے بھی کہ سوائے فواد چوہدری کے کوئی سیاستدان اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ دہشت گرد تنظیم کی مذمت کرنے کی اجازت نہیں تو کم ازکم مرنے والوں کو پُرسہ ہی دینے چلے جائیں۔سیاستدانوں کی مجبوریاں اپنی جگہ زمینی دانش سے بے خبر تمام بااثر طبقات کے لوگ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی شاباش کیلئے بے بس کی آواز بننے کی بجائے انتہا پسندی اور تخریبی سوچ کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ اب پنجاب کے لوگوں کے ذہنوں میں سوال جنم لینے لگے ہیں کہ کب تک انکی شناخت کو سولی چڑھایا جاتا رہیگا۔ وہ وقت دور نہیں جب وہ بڑے بھائی والے تھا پڑے پر کسی سیاسی و غیر سیاسی بندوق کو کندھا دینے کو تیار نہیں ہونگے۔ پنجابی آئین کے تحت اپنے صوبے میں تمام حقوق اور دیگر میں تحفظ کا احساس چاہتے ہیں جیسے تمام صوبوں کے سرکاری ملازموں، کاروباری حلقوں اور مزدوروں کو پنجاب میں تحفظ حاصل ہے۔ ہمارے ہمسائے میں حالات کو بس میں کرنیکی کئی مثالیں موجود ہیں۔ آخر بلوچستان میں فوج کی تعداد نہ بڑھانے کی وجہ کیا ہے، ایک بار پہاڑوں میں چھپے کم ظرف دشمنوں کو نیست و نابود کرنے اور پائیدار امن کیلئے فوجی فاؤنڈیشن جیسے اداروں اور حکومت کے تعاون سے اسپیشل فورس بھرتی کرکے کم ازکم پانچ لاکھ فوج وہاں تعینات کریں۔ تخریب کاروں کے سامنے نہتے لوگوں کو شکار ہونے کیلئے پھینکنے کی بجائے ہر بس میں پچاس ساٹھ لوگوں کی حفاظت کیلئے جدید اسلحے کیساتھ چھ کمانڈو موجودہوں تو کسی کی جرات نہ ہو بس کی طرف دیکھنے کی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ