غزہ کا المیہ ایک بار پھر عالمی ضمیر کی کمزوری اور مسلم اُمہ کی مفلوج بےحسی کو بے نقاب کر رہا ہے۔ یہ چھوٹی سی سرزمین اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے باعث مسلسل جل رہی ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ چند رسمی مذمتی بیانات اور بے اثر قراردادوں کے سوا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ معصوم شہریوں کی چیخیں، ماں کی آہیں، اور بچوں کی لاشیں جو ملبے تلے دبی ہیں، نہ تو انسانی حقوق کے علمبرداروں کو جھنجھوڑ سکیں، نہ ہی غزہ کے گرد موجود مسلم ممالک اور باقی مسلم دنیا کو حرکت میں لا سکیں۔
“اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال دے جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حمایتی مقرر فرما، اور اپنی طرف سے کوئی مددگار دے۔” (النساء: 75
غزہ محض ایک جنگی میدان نہیں، بلکہ دو ملین سے زائد افراد کا گھر ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اب تک 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ دسیوں ہزار زخمی، بے گھر یا لاپتہ ہیں۔ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ ہسپتال، اسکول، رہائشی عمارتیں، پانی کی پائپ لائنیں، بجلی کے نظام—سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کا 70 فیصد سے زیادہ انفراسٹرکچر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکا ہے، جس نے اسے انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
ایسے شدید انسانی المیے کے باوجود دنیا کا ردعمل شرمناک حد تک کمزور رہا ہے۔ جو ممالک خود کو انسانی حقوق اور عالمی قانون کے علمبردار کہتے ہیں، انہوں نے صرف رسمی بیانات اور غیر مؤثر قراردادوں پر اکتفا کیا۔ ایسے بیانات نہ بمباری روک سکتے ہیں، نہ زخمیوں کا علاج کر سکتے ہیں، نہ بھوکوں کو کھانا دے سکتے ہیں، نہ ملبے تلے دبی لاشوں کو زندہ کر سکتے ہیں۔
تاہم اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا کردار مسلم دنیا کا ہے—یا یوں کہنا چاہیے کہ کردار کا فقدان۔ اس وقت دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں۔ یہ ممالک بے پناہ دولت اور فوجی طاقت کے حامل ہیں۔ مسلم دنیا کے پاس کھربوں ڈالر کے خودمختار فنڈز، وسیع توانائی وسائل، اور عالمی معیشت میں مؤثر کردار ہے۔ فوجی طاقت کے لحاظ سے، یہ ممالک پانچ ملین سے زائد فوجی و ریزرو اہلکار رکھتے ہیں، ہزاروں ٹینک، جنگی جہاز، اور ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، مصر جیسے ممالک دفاعی صنعت میں بھی ترقی یافتہ ہیں، مگر غزہ کے معاملے میں یہ تمام طاقت بند کمروں اور سیاسی مصلحتوں میں دفن ہو کر رہ گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“مومنوں کی باہمی محبت، ہمدردی اور شفقت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے، جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا ہے۔” (صحیح مسلم
آخر مسلم ممالک اسرائیل کی بربریت پر خاموش کیوں ہیں؟ اس کا جواب خوف، باہمی اختلافات، اور بیرونی انحصار کی پیچیدہ گتھی میں ہے۔ بہت سے مسلم ممالک مغربی طاقتوں کے ساتھ سیاسی، عسکری یا معاشی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں جو اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔ بعض ممالک کو عالمی تنہائی یا پابندیوں کا خوف ہے۔ کئی ممالک اندرونی انتشار یا علاقائی رقابتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اُمہ کی وحدت کئی دہائیوں سے بکھری ہوئی ہے، اور آج اس کا خمیازہ غزہ کے معصوم عوام بھگت رہے ہیں۔
غزہ کی سرحد مصر جیسے مسلم ملک سے جڑی ہے، جب کہ اردن، لبنان اور شام بھی قریب ہی واقع ہیں—یہ سب مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ مگر نہ کسی نے اپنی سرحدیں وسیع پیمانے پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھولی، نہ مؤثر طبی امداد یا پناہ فراہم کی۔ نہ کسی نے سفارتی سطح پر کوئی عملی قدم اٹھایا۔ سیاسی مفادات اور ذاتی مصلحتیں، اسلامی بھائی چارے اور انسانی فریضے پر غالب آ چکی ہیں۔
(المؤمنون: 52″بیشک تمہاری یہ اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھ ہی سے ڈرو۔”
یہ خاموشی غیرجانبداری نہیں، بلکہ شراکت داری ہے۔ جب دنیا کھلی آنکھوں کے سامنے جنگی جرائم ہوتے دیکھے اور کچھ نہ کرے، تو یہ پیغام جاتا ہے کہ فلسطینیوں کی جانیں بے وقعت ہیں۔ کہ ان کے گھروں، ہسپتالوں اور مستقبل کی تباہی قابلِ برداشت ہے۔ کہ ان کا دکھ چند اخباری بیانات یا سوشل میڈیا کی چند پوسٹوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا جانے—اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔” (صحیح مسلم
کتنی لاشیں مزید گرنی ہوں گی تب جا کے دنیا کو احساس ہوگا کہ بس اب بہت ہو گیا؟ کتنے اور بچے ملبے تلے دفن ہونے ہوں گے تب مسلم دنیا کو یہ ادراک ہوگا کہ اس کی اصل طاقت تعداد میں نہیں، اتحاد اور عمل میں ہے؟ غزہ کا بحران صرف انسانی المیہ نہیں، بلکہ اخلاقی امتحان ہے—اور تاحال دنیا اس امتحان میں ناکام نظر آتی ہے۔
اب الفاظ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ غزہ کو فوری انسانی امداد، سفارتی دباؤ، اور مستقل سیاسی حمایت کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا، صرف دکھ کے اظہار کے لیے نہیں، بلکہ عملی حکمتِ عملی اور باہمی تعاون کے لیے۔ انہیں اقوام متحدہ، عالمی فورمز، اور مغربی اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ فوری جنگ بندی کروائی جائے اور غزہ پر سے محاصرہ ہٹایا جائے۔ تباہ حال علاقوں کی بحالی کے لیے مالی اور فنی مدد فراہم کرنی ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر، فلسطینی عوام کی عزت و حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔
(الرعد: 11″بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔”
تاریخ اس لمحے کو یاد رکھے گی۔ وہ معصوم زندگیاں جو ختم ہو گئیں، اور وہ سرد رویہ جو ان کے ساتھ روا رکھا گیا، سب کو یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ کون کھڑا ہوا اور کس نے کچھ نہ کیا۔ اور یہ سوال ہمیشہ گونجتا رہے گا:
جب غزہ جل رہا تھا، تم کہاں تھے؟