متوسط طبقے کی سفید پوشی سے محرومی…نصرت جاوید

علم سیاسیات کی ذرا سی بھی شدھ بدھ رکھنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ معاشرے میں اضطراب فقط اسی صورت قابو میں رہ سکتا ہے اگر اس کا متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کے قابل رہے۔ تھوڑی لگن اور محنت سے اپنے موجودہ مقام سے اوپر جانے کی خواہش گنوادینے کے باوجود متوسط طبقے کا فرد اس وقت ہی بے بسی سے چڑچڑامحسوس کرنا شروع کردیتا ہے جب اپنی سفید پوشی بھی خطرے میں محسوس کرے۔ عید کی تعطیلات شروع ہونے سے قبل اور ان کے دوران مجھے اپنے گھر تک محدود رہنے کے بجائے چند وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کی چند مارکیٹوں میں جانا پڑا۔ وہاں آئے کچھ گھرانوں کے رویوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے احساس ہواکہ ہمارے متوسط طبقے کی کافی بڑی تعداد سفید پوشی سے محروم ہورہی ہے۔
جو بات لکھی ہے اس کا پہلی بار احساس چاند رات سے ایک دن قبل ہوا۔ ملازم چھٹیوں پر گیا ہوا تھا۔ گھر کے لیے بیکری کا سامان لانے کے لیے مجھے بیگم صاحبہ نے ہاتھ کا لکھا ایک پروانہ تھمایا۔ اسے لے کر مجھے اس دوکان پر جانا تھا جس کے ہم مستقل گاہک ہیں۔ عید کے دن کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری بیوی نے جو فہرست بنائی تھی وہ کافی اشیاء پر مشتمل تھی۔ میں کائونٹر پر کھڑے صاحب کو وہ فہرست دے کر ایک کونے میں چلا گیا۔ دریں اثناء نوٹس کیا کہ دوکان کے فرش پر مختلف جگہوں پر موبائل نوعیت کی چند شوکیس نما چھوٹی الماریاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں عید کی آمد کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف ڈیزائن اور سائز کے کیک رکھے تھے۔ میٹھے کا میں ہرگز شوقین نہیں۔ جو کیک رکھے تھے وہ دیکھنے میں لیکن بھلے لگے۔ میں انھیں دیکھنے میں محو تھا تو پانچ کے قریب گھرانے خاوند، بیوی اور دو تین بچوں سمیت اس دوکان میں آئے۔ بیوی تو الماریوں میں لگی اپنی ضرورت کی اشیاء نکالنا شروع ہوگئی۔ بچے مگر تتلیوں کی طرح عید کیک والے شو کیسوں کے گردمنڈلانے لگے۔
پانچوں گھرانوں کے بچوں نے اپنے ساتھ کھڑے والد سے کیک خریدنے کا تقاضا کیا۔ ان میں سے فقط ایک باپ نے وہی کیک خریدا جس کی خواہش اس کے بچوں نے کی تھی۔ باقی چار کائونٹر پر گئے اور بچوں کی پسند کے کیک کی قیمت دریافت کی۔ اسے گراں تصور کرتے ہوئے بچوں کو یہ کہتے ہوئے کوئی اور کیک خریدنے کو مائل کرنا شروع کردیا جو کیک انھیں پسند آیا ہے ’بہت بڑا‘ ہے۔ گھر کو اس کی ضرورت نہیں۔ شوگر کے مرض کا ذکر بھی اس ضمن میں ایک دو بار ہوا۔ پانچوں میں سے لیکن ایک گھرانہ ایسا تھا جو سستا ترین کیک خریدنے کی استطاعت سے بھی محروم تھا۔ اس کے بچوں کی ماں نے سرگوشی میں اولاد کو فریادی آواز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ مذکورہ بیکری بہت مہنگی ہے۔ وہ ایک اور دوکان سے انھیں ان کی پسند سے کہیں زیادہ بڑا اور خوش شکل کیک خرید کردے گی۔ ماں کا وعدہ مجھے جھوٹی تسلی کی مانند سنائی دیا اور میں اداس دل کے ساتھ دوکاندار کو یہ کہتے ہوئے باہر نکل آیاکہ میری بیوی کی فراہم کردہ فہرست کا سامان پیک ہوجائے تو اسے ملازم کے ہاتھ باہر بھیج دیا جائے۔ میں انتظار کرتے تھک گیا ہوں۔ اب گاڑی میں بیٹھوں گا۔
بیکری کا سامان لے کر گھر جاتے ہوئے اچانک خیال آیا کہ میری آنکھوں میں ڈالنے والے ڈراپس ختم ہورہے ہیں۔ انھیں خریدنے کے لیے اسلام آباد کے نام نہاد پوش ایریا کے سیکٹر ایف ایٹ کی مین مارکیٹ میں داخل ہوا تو کچھ فیملیوں کے لوگ افطاری کا سامنا خریدرہے تھے۔ اس مارکیٹ میں کڑاہی گوشت کی بہت دوکانیں بھی ہیں۔ کم از کم تین گھرانوں کی خواتین مختلف دوکانوں پر وہاں تیار ہونے والی ڈشوں کے نرخ معلوم کرتی سنائی دیں ۔بعدازاں ان سب نے اپنے خاوند یا بچوں کو یہ بتایا کہ ’بہت مہنگائی ہوگئی ہے۔ ہم تو یہاں کسی بھی دکان پر کھانا کھانے نہیں آسکتے۔‘ ایف 8 مرکز کی مارکیٹ میں یہ فقرہ سن کر میں حیران ہونے کے بعد پریشان ہوا۔ بیکری سے میرے ساتھ آئی اداسی مزید گہری ہوگئی۔ اسلام آباد کے ایک نام نہاد پوش سیکٹر میں سربازار متوسط طبقے کی نارسائی کا اظہار بآوازِ بلند سننے کا میں کبھی تصور بھی کرسکتا تھا۔ چاند رات سے ایک دن قبل مگر گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے سفید پوشی کو لاحق خطرات سے آگہی نصیب ہوگئی۔ 
حقائق جاننے کے لیے رپورٹر فقط ذاتی مشاہدے پر انحصار کی حماقت کرنہیں سکتا۔ اس انتظار میں رہا کہ سفید پوشی برقرار رکھنے میں ہمارے متوسط طبقے کے افراد کو جو مشکلات پیش آرہی ہیں اس کا تجربہ کسی اوردوست کو بھی ہوا ہے یا نہیں۔ عید گزرجانے کے بعد ایک عزیز ازجان دوست کا ٹیلی فون آگیا۔ وہ لاہور اسلام آباد موٹروے کے درمیانی علاقے میں ایک انٹرچینج کے قریب ریستوران چلاتے ہیں۔ مقامی طورپر نسبتاً خوشحال افراد کے علاوہ سفید پوش گھرانوں میں بھی یہ ریستوران اپنے کھانے کے ذائقے اور خوش گوار ماحول کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ کاروباری ہونے کے باوجود میرے دوست نظریاتی اعتبارسے خود کو ’سوشلسٹ‘ پکارتے ہیں اور اسی کی وجہ سے روزمرہ اشیاء کی قیمتوں اور ان کے جنتا پر اثرات کو اعدادوشمار کی بدولت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
عید کی چھٹیوں کے دوران ان کے ہاں خصوصی طورپر تیار کردہ آئس کریم کا سٹال بھی لگایا جاتا ہے۔ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ اس بار عید کی چھٹیوں کے دوران ’پہلی بار‘ ہوا کہ چند گاہکوں نے آئس کریم کا آرڈر دینے سے قبل اس کی قیمت پوچھی۔ اعدادوشمار کو کمپیوٹر کی طرح جمع کرنے کی عادت کی بدولت انھوں نے دریافت کیا کہ آئس کریم کے سٹال پر آنے والے افراد میں سے دس سے پندرہ فیصد نے آئس کریم کی قیمت کو گراں جانا اور آگے بڑھ گئے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے گاہکوں نے قیمت کو اپنی بساط سے زیادہ تصور کیا۔ قیمت کو ناقابل برداشت جان کر جب خاندان کے سربراہ آگے بڑھنا چاہتے تھے تو ان کے ہمراہ آئے بچے مصررہے کہ آئس کریم خریدنا ہوگی۔ ان بچوں کے والدین نے برسرعام شرمندگی سے بچنے کے لیے صرف ان کے لیے آئس کریم خریدی۔
جو واقعات میرے مشاہدے یا علم میں آئے ہیں وہ نسبتاً خوشحال نظرآتے سفید پوشی کے لیے مخصوص تصور ہوتی دوکانوںیا مارکیٹوں تک محدود ہیں۔ ان کی بنیاد پر لیکن میں نہایت اعتماد مگر دُکھی دل کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ شاید نچلے متوسط طبقے کے لیے مختص شمار ہوتی دوکانوں اور مارکیٹوں میں اس سے بھی برا حال ہوسکتا ہے۔ ایسے عالم میں بجلی کے نرخوں میں کمی ایک اچھی خبر ہے۔ وزیر اعظم شہبازشریف کو مگر پے در پے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو متوسط طبقے کو اعتماد فراہم کریں کہ وہ اپنے موجودہ مقام سے پھسل کر کامل غربت کی جانب نہیں لڑھک رہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت