اسلام آباد ہائیکورٹ،مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست مسترد، قاسم سوری کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار


اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے خارج کردی،عدالت نے پی ٹی آئی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا 123 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا آرڈر بھی غیر قانونی قرار دے دیا،عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل کی لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا بھی مسترد کر دی۔منگل کو عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس میں تو ہمارا فیصلہ موجود ہے ۔ ہم نے لکھا تھا کہ سیاسی کیسز میں ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ ہم نے فیصلے میں لکھا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی ہی یہ کرے گا، عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے کبھی پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، ہم بھی پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ مرحلہ وار استعفے منظور کریں۔ اگر کرنے ہیں تو 123 اکٹھے منظور کریں۔

عدالت نے کہا کہ اس وقت آپ کے 34 ممبران تھے جنہوں نے استعفے دیئے تھے ۔ ہم نے اپنے فیصلے میں بتایا تھا کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ استعفیٰ دے تو منظوری کا پراسس کیا ہو گا۔ وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی سپیکر اس وقت بطور قائم مقام سپیکر کام کر رہا تھا جس نے 123استعفے منظور کئے۔ اس کے خلاف کسی ایک ممبر نے بھی اس کو چیلنج بھی نہیں کیا۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 123ارکان اسمبلی نے استعفے دیئے صرف 11کے منظور کئے گئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپیکر کو ہدایت نہیں دیں گے۔

ڈپٹی سپیکر نے جو کیا یا تو وہ ہر ممبر کو بلاتے اور ان کے استعفے منظور کرتے۔ ڈپٹی سپیکر نے استعفے منظور کرنے کے اصول پر عمل نہیں کیا۔ ڈپٹی سپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے، الگ بٹھا کر پوچھتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کا استعفوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ موجود ہے۔ آپ سپیکر کے سامنے یہ فیصلہ رکھیں کہ ہمارا استعفیٰ ایسے منظور کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ اقلیت کے بنائے سپیکر ہیں، ہم ان کے پاس نہیں جاتے۔

عدالت نے کہا کہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر کے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔سپیکر نے 11ارکان کے استعفے اپنی تسلی کر کے ہی قبول کئے ہوں گے۔ سپیکر کے اس اطمینان کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ پارٹی سے کہیں ایک ایک رکن کو سپیکر کے پاس بھیجیں۔ اپنے ارکان کو سپیکر کے پاس بھیجنے میں تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں ہچکچاہٹ ہے تو ہی عدالت میں آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور عدالتی فیصلے کے برخلاف ڈپٹی سپیکر اجتماعی طور پر استعفے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ڈپٹی سپیکر نے استعفوں کی اجتماعی منظوری طے شدہ طریقے کے مطابق نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب تک اسمبلی اراکین کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں؟ استعفیٰ دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے۔ارکان اسمبلی اکیلے نہیں وہ نمائندہ ہیں اپنے حلقے کے تمام عوام کے۔ سب پابند ہیں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے۔

وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرچکے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لارجر بنچ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کرانے ہیں تو پورے123حلقوں میں کروائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو پتا ہے الیکشن میں کتناخرچ آتاہے؟ عوام اپنے نمائندے 5 سال کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جب دل کیااستعفیٰ دیا پھرالیکشن لڑلیا۔

عدالت نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مستردکرتے ہوئے خارج کردی۔