نئے بیلسٹک میزائیل کا تجربہ ہماری دفاعی طاقت میں اہم اضافہ ہے،فواد چوہدری


اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کا میزائیل پروگرام دنیا کے چند بہترین میزائیل پروگرامز سے ہے، زمین سے زمین پر مار کرنے والے نئے بیلسٹک میزائیل کا کامیاب تجربہ ہماری دفاعی طاقت میں اہم اضافہ ہے ، انشاللہ ہماری قوت حرب اس شاندار اضافے سے مزید مئوثر ہو گی۔ اب ہتھیاروں کی جنگیں کم اوراوپیننز کی جنگیں زیادہ ہیں۔ اب دنیا کی بڑی لڑائیاں اوپینینز کی لڑائیاں ہیں۔میں اے پی پی سے کہوں گا کہ وہ حکومت کے پیسوں اور بجٹ سے اپنے آپ کو نکالنے کی کوشش کرے اوراپنے پائوں پر کھڑاہونے کی کوشش کریں۔

ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے حکومت کے انٹرنشپ پروگرام کے تحت زیر تربیت انٹرنیز سے خطاب کرتے ہوئے  اور اپنے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا اوپینین اور رائے کی دنیا ہے، پہلے دنیا میں اخلاقیات اور طرح کی تھیں، لوگ جاتے تھے جہاں پر پتا چلتا تھا کہ پیسے ہیں اور وسائل ہیں وہاں جا کر قبضہ کر لیتے تھے، خود ہمارے ساتھ ہندوستان میں یہی ہوا ہے کہ برطانیہ سے ایک ایسٹ انڈیا کمپنی اٹھی ، انہوں نے آکر ہندوستان کے اوپر قبضہ کر لیا اور یہاں سے ساری لوٹ مار کی ، ہزاروں لوگ یہاں پر قتل اور شہید ہوئے اوروہ واپس چلے گئے۔

دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں لو گ ہلاک ہو گئے ، جب جنگ عظیم دوئم کے بعد بین الاقوامی قانون پروان چڑھنے لگا تو دنیا میں اخلاقیات تبدیل ہو گئیں۔ اب ہتھیاروں کی جنگیں کم اوراوپینز کی جنگیں زیادہ ہیں، اگر افغانستان میں روایتی جنگ کی بات کریں تو امریکہ تو تین  یا ساڑھے گھنٹوں میں کامیاب ہو گیا تھا اور کابل میں حکومت ختم ہو گئی تھی اوراس وقت کے تمام حکمران کابل چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور موٹرسائیکلوں پر بھاگ گئے تھے اور امریکہ کا تمام کنٹرول امریکہ کے بمبار طیاروں کے ہاتھ میں تھا لیکن بعد میں یقیناً یہی کہا جاتا ہے کہ امریکہ وہ جنگ ہار گیا، وہ کیوں اور کیسے ہار گیا، کیونکہ فتح کی تعریف دنیا میں تبدیل ہو گئی۔ اب تعریف یہ ہو گئی ہے کہ آپ نے ایک مستحکم معاشرہ اور نظام قائم کرنا ہے، 1950کی دہائی کے بعد کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے کہ اس پر کسی اور ملک نے حملہ کرکے اسے اپنا حصہ قراردے دیا ہو،عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا اور پھر عراق کو کویت کو چھوڑنا پڑا۔ اب دنیا کی بڑی لڑائیاں اوپینینز کی لڑائیاں ہیں اور اوپینین میں وہ پارٹی جیتتی ہے جو اپنے دماغ کا بہترین استعمال کرتی ہے، ہر معاملہ میں مختلف اوپینینز ہوتی ہیں، کس طرح سے آپ اپنی کہانی پیش کرسکتے ہیں وہ کہانی جیتتی ہے، اب فوجیں اس طرح سے جنگیں نہیں جیتتیں اور اس طرح سے عملی لڑائیاں نہیں ہوتیں ، آپ کی کہانی کی لڑائیاں ہیں کہ آپ اپنی کہانی کیسے پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو نوجوان اے پی پی کا حصہ بنے ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اے پی پی کو اپنا رپورٹنگ اسٹائل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، 50یا60کی دہائی میں جس طرح طویل کالم لکھے جاتے تھے یا بیان لکھے جاتے تھے اب اس طرح کی رپورٹنگ نہیں رہی ، لہذا آپ کو اپنی کہانیاں تخلیق کرنی ہیں ، اگر آپ اپنی ساکھ بنائیں گے تو پھر لوگ آپ کو اہمیت دیں گے ، اگر آپ کی ساکھ نہیں ہو گی تو لوگ بھی آپ کو اہمیت نہیں دیں گے ، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی کہانی کو کس طرح پیش کرسکتے ہیں اور اس کی اینگلنگ کیسے کرسکتے ہیں اور اس میں خوبصورتی کیا ڈال سکتے ہیں اور اس میں کیا دلچسپی پیدا کرسکتے ہیں۔ روزانہ نئی کہانیاں آتی ہیں اور ہم نے روزانہ بیٹھ کر سوچنا ہوتا ہے کہ ہم اس کہانی کو کیسے پیش کرنا ہے اور کیسے بیچنا ہے۔

میں اے پی پی سے کہوں گا کہ وہ حکومت کے پیسوں اور بجٹ سے اپنے آپ کو نکالنے کی کوشش کرے اوراپنے پائوں پر کھڑاہونے کی کوشش کریں، میڈیا کے ادارے حکومت پر انحصار کریں گے یہ 70کی دہائی کی تھیوری تھی جو اب نہیں چل پائے گی۔ آپ کو اپنا کمرشل ماڈل بنانا چاہئے اور آپ کو لازمی طور پر دیکھنا ہو گا کہ اے پی پی کو ہم کمرشل طور پر کیسے قابل عمل بناسکتے ہیں اور ایسا کرنے کے کہ آپ کا یہ کام ہے کہ کسی بھی میڈیا ادارے کی طرح آپ اپنی کہانی کیسے بیان کرتے ہیں۔