امارتِ اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کرنا اور اس کے ساتھ سر گرمِ عمل رہنا اس کے مطلوبہ تغیر کے لیے ضروری ہے۔ آ ئی پی ایس راونڈ ٹیبل


اسلام آباد(صباح نیوز)طالبان کی حکومت یا امارتِ اسلامیہ افغانستان ایک جنگجو مزاحمتی قوت سے لے کے ایک ریاستی حکومت تک کے سفر میں ایک سیاسی تبدیلی سے گزر رہا ہے ۔ اس سفر میں اسے بہت سی ایسی خالی جگہوں کا سامنا ہے جنہیں ابھی بالخصوص منقطع انداز میں پر کرنا ممکن نہیں۔ افغانستان میں آتی ہوئی یہ تبدیلی بین الاقوامی برادری، اور خاص طور پر علاقائی ممالک سے ایسا کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتی ہے جو متفرق سطحوں پر متحرک، مستقل اور باہمی طور پر سرگرمِ عمل رہ کر اس تبدیلی کو آسان بنا سکے۔

ان خیالات کا اظہار “تبدیل ہوتا افغانستان” کے عنوان سے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) میں ہونے والی راونڈ ٹیبل میں کیا گیا جس سے وزیر اعظم/وزیر مملکت کے معاون خصوصی اور افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے سابق سفیر محمد صادق نے کلیدی خطاب کیا۔ چیتھم ہاوس کے قوانین پر مبنی اسلام آباد کے دانشوروں کے ایک منتخب شدہ اجتماع سے سفیر محمدصادق کا ان کیمرہ خطاب، جس کا مقصد افغانستان کی حقیقی تصویر کا جائزہ لینا اور پاکستان کو اس منظر نامے میں دیکھنا تھا،

آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو بریگیڈیئر(ر) ڈاکٹر سیف الرحمن ملک نے ماڈریٹ کیا ۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) آصف یاسین ملک،سابق کور کمانڈر پشاور، سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس، پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی، میجر جنرل(ر) ڈاکٹر شاہد احمد حشمت، عبید اللہ بحیر، سابق فیکلٹی ممبر، امریکن یونیورسٹی ، کابل ، طاہر خان، سینئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار، ڈاکٹر فرحت تاج، ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے، ڈاکٹر سلمی ملک، اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی، اور بریگیڈیئر(ر) سید نذیر محمد نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

گول میز کی کارروائی کے اختتام پر آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن نے ریمارکس دیے کہ افغانستان میں طالبان کی ‘خصوصی’ حکومت کے ایک سال بعد حالات اب بھی نازک ہیں کیونکہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ، ایک جامع حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی پیدا ہوا ہے اور اس خلا کو فوری طور پر حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، افغانستان کے لیے پائیدار پالیسیوں کو اپنانے اور تشکیل دینے میں امریکی قیادت کی ناکامی ،جو کہ دو دہائیوں سے اس کے کینوس پر موجودتھی،اب نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان، جسے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی ترک کر دیا ہے، اب ایک ایسی مزاحمتی قوت کے زیر اثر ہے جو حکومت کرنے کے لیے بغیر تیاری کے اور بغیر کسی منصوبہ بند ی کے آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں، تبدیلی ایک وقت طلب عمل ہو گا. تاہم، رحمن نے زور دیا ، کہ ایک اہم عنصر جو بڑی حد تک مطلوبہ تبدیلی حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، وہ مختلف ڈومینز اور سطحوں پر افغانستان کے ساتھ دنیا کا سرگرمِ عمل ہونا ہے ۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کو اپنے فعال نقطہ نظر اور پالیسی کی سمت کو ، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ عمل وقت طلب ہے ،مستقل طور پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر اس بارے میں آگہی پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں اس کے قومی امیج کو منفی طور پر متاثر کرنے والے اندرونی اور بیرونی عوامل کو بھی دور کرنا بہت ضروری ہے۔