کراچی(صباح نیوز)خدمتِ خلق اسلام کا آفاقی پیغام ہے جو رنگ و نسل سے بالاتر ہے اور دین کے بنیادی ترین اجزا میں شامل ہے۔ اللہ کے احکامات اور قران کی تعلیمات میں انسانیت کی خدمت پر خصوصی زور دیا گیا ہے جبکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہمیں اسکی اہمیت مقدم ملتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس العربیہ کے ناظمِ اعلی مولانہ محمد حنیف جالندھری نے ‘اسلام اور انسانی خدمات: امکانات اور مسائل’ کے عنوان سے ہونے والی دو روزہ قومی کانفرنس میں کیا، جس کا انعقاد انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس(آ ئی سی آر سی) اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)نے مشترکہ طور پر ایک نجی ہوٹل میں کیا تھا۔
اس کانفرنس میں ملک بھر سے جامعات، مدارس اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے محققین نے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کیے جبکہ اس میں کئی ملکی اور بین الاقوامی سماجی تنظیموں کے سربراہان اور نمائندے بھی شریک تھے۔
کانفرنس کے اختتامی روز الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے صدر محمد عبدالشکور، کنور وسیم، صوبائی سیکرٹری ہلالِ احمر پاکستان ، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد، اور مولانا مفتی عبدالرحیم، جامعہ رشیدیہ کراچی، نے علیحدہ علیحدہ نشستوں کی صدارت کی۔ اس موقع پر کراچی سے ڈاکٹر شہزاد چنا اور راحیلہ خان ایڈووکیٹ، اسلام آباد سے ڈاکٹر عمر سلیم، ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان اور حافظ اسامہ حمید اور لاہور سے اقصی تصغیر نے اپنے مقالے پیش کیے،
جبکہ مقالے پیش کرنے کے بعد ہونے والی گفتگو میں عمیر حسن، ہیڈ آف اسلامک ریلیف یوکے، محمد عبدالشکور، الخدمت فاونڈیشن، ڈاکٹر محمد فیاض عالم، دعا فانڈیشن، ڈاکٹر شاہدہ نعمانی، شعور ویلفیئر ٹرسٹ، ڈاکٹر سید عزیز الرحمان، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن عمیر صدیقی، دارالعلوم کراچی سے مولانا ڈاکٹر زبیر اشرف عثمانی، اور پاکستان اسلامِک میڈیکل ایسو سی ایشن (پیما)کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمدحنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ جید علما کے مطابق اللہ کی بندگی، رسول کی اطاعت اور خلقِ خدا کی خدمت ہی دراصل اسلام کی صحیح تشریح اور خلاصہ ہے۔ اس کی زندہ مثال اسلام کی بنیاد پر کام کرنے والی ایسی کئی فلاحی تنظیمیں ہیں جو انسانی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھ کر اسے عوامی سطح پر اجتماعی طور پر ادا کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں میں وہ دینی مدارس بھی شامل ہیں جو نہ صرف لاکھوں غریب، یتیم اور مسکین طلبا کو دینی تعلیم فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان کی کفالت کا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں۔
اس موقع پر خود اپنے وفاق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے تقریبا 23000 مدارس وفاق المدارس العربیہ سے منسلک ہیں جس سے 25 لاکھ سے زائد طلبا مستفید ہو رہے ہیں، اور یوں وفاق المدارس العربیہ سمیت ملک میں موجود دیگر وفاق اور مدارس بہت بڑی سماجی تنظیم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔جامعتہ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی مسائل کا حل سیرت کی تعلیم میں ہے۔ لوگوں کو جذباتیت سے نکال کر حقیقت اور علم کی طرف لانا ضروری ہے۔ قوم کی ترقی کے لیے ہر طرح کی عصبیت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اقلیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں غیر محفوظ ہونگی تو بیرونی دنیا میں رہنے والے مسلمان بھی تکلیف اور پریشانی کا شکار رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں انسانی ہمدردی کی ایک مثال اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی کافروں سے کیے گئے معاہدات پر نا صرف عمل کیا گیا بلکہ ان کی مشکلات میں بھی مدد کی گئ۔ مفتی عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ مدارس اور این جی اوز کے درمیان غلط فہمیوں سے بھری ایک خلیج حائل ہے جس کے لیے دونوں کو آپس کی غلط فہمیاں دور کر کے اپنی اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔الخدمت فاونڈیشن کے صدر عبدالشکور کا کہنا تھا کہ الخدمت سمیت دیگر سماجی خدمت کی تنظیمیں جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی خدمت کے لیے سرگرمِ عمل ہیں وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر حالتِ جنگ اور حالتِ امن دونوں صورتوں میں عوام الناس کو مسلم یا غیر مسلم سمیت بغیر کسی تفریق یا کسی ذاتی مفاد کے خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
نیشنل ہونیورسٹی اف ماڈرن لینگویجز سے تعلق رکھنے والی آئی پی ایس کی نان ریزیڈنٹ فیلو ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان نے اس موقع پر ایک دلچسپ مقالہ پیش کیا جس میں سمندروں کی حدود میں دی جانے والی انسانی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین کا تقریبا تین چوتھاء حصہ پانی پر مبنی ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک عرصے سے سمندری تجارت، ماہی گیری، اور سیکیورٹی وغیرہ کی غرض سے ان بحری راستوں کا استعمال کر رہی ہے۔
سمندر میں ان مختلف مقاصد کے تحت لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی ان کے لیے مختلف قسم کے خطرات کو بھی جنم دیتی ہے جن میں سونامی اور سمندری طوفان جیسی قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ، بحری قذاقی اور دیگر جرائم، یا کشتیوں، بحری جہازوں یا ماہی گیروں کو پیش آنے والے حادثات جیسی غیر قدرتی آفات بھی شامل ہیں۔
اس سب کے ساتھ ساتھ سمندری مخلوق کے تحفظ کی بھی خاص اہمیت ہے۔ ان سب امور کی دیکھ بھال کے لیے سمندر میں پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔کانفرنس کے اختتام پر خالد رحمن، چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور ڈاکٹر ضیا اللہ رحمانی، آئی سی آر سی کے علاقائی مشیر برائے قانون اور فقہ، نے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔