نہیں لگتا حکومت پیٹرولیم مصنوعات سستی کر پائے گی ، چیئرمین قائمہ کمیٹی پٹرولیم


اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے چیئرمین سینیٹر عبدالقادر نے کہا ہے کہ نہیں لگتا حکومت پیٹرولیم مصنوعات سستی کر پائے گی، ابھی تو آگے جاکر حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی لگانا ہے، آئی ایم ایف کو بجٹ میں 750ارب روپے پٹرولیم سے بتائے گئے ہیں۔

چیئرمین سینیٹر عبد القادر کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس ہوا جس میں وزیر پٹرولیم اور سیکرٹری موجود نہیں تھے۔چیئر مین کمیٹی نے سوال کیا کہ وزیر پیٹرولیم اور سیکرٹری کیوں نہیں آئے، پہلے بھی ہم نے اسی وجہ سے اجلاس ملتوی کیا تھا،آج بھی دونوں وزیر اور سیکرٹری نہیں ہیں ۔حکام پٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک قطرمیں ہیں، سیکرٹری پٹرولیم کو بخار ہے اور کورونا کی علامات ہیں۔رکن کمیٹی فدا محمد نے کہا کہ یہ سب بہانے ہوتے ہیں بخار کے، جب تک متعلقہ وزیر اورسیکر ٹری نہیں آتے اجلاس جاری نہ کیا جائے ۔

عون عباس نے کہا کہ یہ سب مذاق بنایا گیا ہے۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں پیٹرولیم ڈویژن اور متعلقہ افسران کو سن لینا چاہیے، اس سے کیا فرق پڑے گا،جواب میں چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ اجلاس کرلیتے ہیں، اراکین اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیں۔سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ سیکرٹری پیٹرولیم کو سمن کیا جائے، عون عباس نے اس موقع پر کہا کہ میں تو حاضری نہیں لگائوں گا، ہم یہاں ٹی اے ڈی اے کے لیے نہیں آتے جس کے بعد وہ اجلاس چھوڑ کر چلے گئے تاہم اراکین کمیٹی عون عباس کو مناکر واپس لے آئے۔اجلاس میں رکن کمیٹی فدا محمدنے کہا کہ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات سستی اور پاکستان میں مہنگی ہو رہی ہیں، اس کی وجہ کیا ہے ؟۔

چیئرمین اوگرا مسرور خان نے جواب دیا کہ اوگرا پی ایس او سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدی قیمت کی بنیاد پر قیمتوں پر ورکنگ کرتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کسی ایک روز کی خام تیل کی قیمت پر نہیں ہوتا،اوگرا اپنے صارفین کا مکمل تحفظ کرتا ہے۔مسرور خان نے کہا کہ اوگرا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں اپنے طور پر ایک پیسہ اوپر نیچے نہیں کرسکتا، پاکستان ضرورت کا 70فیصد پٹرول درآمد کرتا ہے،30 فیصد پٹرول مقامی ریفائنریز بناتی ہیں جبکہ پاکستان میں 50 فیصد ڈیزل درآمد اور 50فیصد مقامی ریفائنریاں بناتی ہیں۔

کمیٹی رکن فدا محمدنے سوال کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیوں بڑھیں؟،کہیں پی ایس او کے پاس پرانا مہنگا سٹاک تو نہیں پڑا تھا، نہیں لگتا حکومت پیٹرولیم مصنوعات سستی کر پائے گی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئی ایم ایف کو بجٹ میں 750 ارب روپے پیٹرولیم سے بتائے گئے ہیں، ابھی تو آگے جا کر حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی لگانا ہے۔سی ایف او سوئی سدرن نے کہاکہ کے الیکٹرک کو سوئی سدرن کے 125ارب روپے دینے ہیں،

سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ پٹرولیم مصنوعات پر پریمیم میں کمی لانے کے اقدامات کئے جائیں۔کمیٹی کو بریفنگ میں پی ایس او حکام نے کہا کہ ہم نے حکومت سے 100ارب مانگے تھے، ہمیں مجموعی طور پر 52ارب روپے ملے ہیں۔سیف اللہ ابڑو نے سوال کیا کہ کے الیکٹرک حکومتی اداروں کی ادائیگی کیوں نہیں کرتا، کے الیکٹرک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھا رہا ہے، کے الیکٹرک کو وفاقی حکومت کے بھی 300ارب روپے دینے ہیں، کے الیکٹرک مافیا ہے۔