آزادی کے 75سال بعد بھی ہمیں جبری گمشدگی جیسے مسائل کا سامنا ہے،آمنہ مسعود جنجوعہ


اسلام آباد(صباح نیوز) ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ہمیں جبری گمشدگی جیسے مسائل کا سامنا ہے، کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ پاکستان کی بقا اور ترقی کی خاطر ہمارے ملک میں ہر شخص کو اپنی ذمہ داری اور اپنا کردار ادا کرنا ہے،مرتے دم تک اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے، ان خیالات کا اظہار انھوںنے یوم آزادی کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ جب ہم مشترکہ پاکستان میں رہ رہے تھے تو ہم الزام دیتے تھے کہ ہماری زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ ہندو ہمارے اوپر ظلم کرتے ہیں لیکن جب ہم نے آزاد ریاست بنائی تو ہم نے اس امید پر بنائی کہ ہم یہاں محفوظ ہوں گے، اسی بنیاد پر آئین پاکستان وجود میں آیا جس کے مطابق پاکستان کے تمام شہری چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقہ، کسی بھی علاقے، کسی بھی نسل سے ہو وہ اس میں ایک فعال آئین موجود ہے، میں ہماری زندگیاں غیرمحفوظ ہیں۔ ہمارے پیاروں کو کھلے عام گھر آ کر اٹھایا جا رہا ہے، ان کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ کیا ہم نے یہ ریاست اس لئے بنائی تھی کہ ہمیں تحفظ دینے والے ادارے  ہماری آزادی چھین لیں؟ ہم جشن آزادی کے دن اپنے پیاروں کی آزادی کو ترسیں؟ ایسا تو برصغیر میں بھی نہیں ہوتا تھا کہ شہری کو لاپتہ کر دیا جائے اور اس کے بعد لواحقین کو اس کا کوئی اتا پتہ نہ ہو۔ یہاں آئین کتنا نافذ العمل ہے؟ ہم آزاد ریاست بنانے کے باوجود بھی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبری گمشدہ افراد کے معصوم بچوں، بیویوں اور دکھی ماؤں کو آپ کس طرح کہیں گے کہ وہ جشن آزادی منائیں جبکہ ان کے باپ شوہر اور بیٹے جبری لاپتہ ہیں۔ اس آزادی کا مطلب کیا ہوا؟ وہ کس قسم کی آزادی منائیں؟

انھوں نے کہا کہ  بانی پاکستان قائداعظم نے فرمایا کہ ”پاکستان میں ہر فرقے، ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص آزاد ہو گا اس کو جانی و مالی تحفظ حاصل ہو” بابائے قوم کے فرمان کی توہین ہو رہی ہے اور یہ عمل آئین و قانون کے بھی خلاف ہے۔ یہاں انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں کیا یہ وہ ملک ہے جس کے لئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، اپنے جان و مال قربان کئے۔ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ کیا واقعی اس ملک میں آئین ہے؟ کیا جبری گمشدہ لوگوں کو انصاف ملتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پاکستان بھر کیلئے ایک خوشی کا موقع ہے اور ڈائمنڈ جوبلی منائی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ 75 سالوں میں ہم نے کیا سفر طے کیا اور ترقی کی کون سی منزل پر ہم پہنچ چکے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی استحکام اور انصاف کی ترسیل میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔ ابھی تک ہماری سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ملک کے وہ ادارے جن پر ملک کی ترقی و پستی کا انحصار ہوتا ہے۔ وہ ابھی تک مستحکم نہیں ہوئے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ  ہم معاشی بدحالی کی طرف جا رہے ہیں اور اس بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔پاکستان کی بقا اور ترقی کی خاطر ہمارے ملک میں ہر شخص کو اپنی ذمہ داری اور اپنا کردار ادا کرنا ہے چاہے وہ عدلیہ کی بات ہو، چاہے وہ افواج پاکستان کی بات ہو، وہ انتظامیہ کی بات ہو یا وہ قومی اسمبلی و سینٹ کی ذمہ داریوں کی بات ہو۔ ملک کی انتظامیہ اور حکومتی اداروں میں بھی وہ لوگ لائے جائیں جو اپنی ذمہ داریاں بخوبی جانتے ہوں اور ملک کی فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 75سالوں میں ہم نے اوپر جانے کی بجائے پستی کی طرف سفر کیا ہے ہم بد سے بدتر کی طرف گامزن ہیں۔ پچھترویں سالگرہ کے موقع پر سب کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم ملک کی ترقی کے لئے اپنی تمام ذمہ داریاں بخوبی ادا کر رہے ہیں؟ کیا سڑکیں اور روڈ بنانے سے ہمارا ملک مستحکم ہو رہا ہے؟ کیا ترقی یافتہ ممالک میں عورتیں اور بچے سڑکوں پر انصاف کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں؟ ہمیں عزم کرنا ہو گا کہ ملک کو جبری گمشدگی زندگی جیسی لعنت سے پاک کروانا ہے۔ ملک کو حقیقی آزادی دلوانا ہو گی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عدلیہ، چیف آف آرمی سٹاف، وزیراعظم اور صدر مملکت اس کا تہیہ کریں۔ ہم ان تمام حکومتی اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو اصلاح احوال کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کریں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ہماری یہ ذمہ داری ہو گی  ہم ان کے ضمیر کو جھنجوڑتے رہیں اور آخری لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ ہمیں ہر حال میں پاکستان کو ایک ایک ترقی یافتہ اور آزاد ملک بنانا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس اور تمام لاپتہ افراد کے لواحقین یہ حلف لیتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے اور اس مقصد کے لئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی روایات کے مطابق آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر سطح پر آواز اٹھائیں گے۔ جبری گمشدگی اور لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جب تک بند نہیں ہو گا۔ ہماری جدوجہد بھی جاری رہے گی۔