اسی( 80)کی دھائی کا منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے بینک اسکوائیر میرپور کے بڑے جلسہ عام میں آزاد مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری نور حسین (اللہ غریق رحمت کرے)اپنے بیٹے سلطان محمود کا ہاتھ تھام کر اسٹیج پر لائے،جلسہ میں موجود جنرل فیض علی چشتی کومخاطب کر کے کہا کہ جنرل صاحب لوگ مجھے طعنہ دیتے تھے کہ نور حسین ان پڑھ ہے،فرمایا یہ ولایت(برطانیہ)سے بیرسٹری کرکے آیاہے آج سے میری پارٹی کی سربراہی یہ کریگا۔ چوہدری نور حسین جیسی زیرک شخصیت کی شفقت پدرانہ اور سیاسی مہارت کے سبب بیرسٹر صاحب 85کے انتخابات میں میرپور سے پہلی بار انتخابی معرکہ جیت کرآزاد کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 85 سے 2011 تک سات انتخابی معرکوں میں سے چھ بار بیرسٹرسلطان منتخب ہوتے رہے-
صرف 91میں وقت کے وزیر اعظم جناب راجہ ممتاز حسین راٹھور مرحوم و مغفور نے اپنوں کے ہاتھوں زچ ہو کر اسمبلی توڑ دی۔ نئے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست فاش ہوئی تو بیرسٹر بھی یہ سیٹ ہار گے۔اباجان کی پارٹی سے سیاسی سفر شروع کرنے والے بیرسٹر صاحب نے تین دہائیوں میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیاہے۔آزاد مسلم کانفرنس کو آزاد کشمیر میں شرافت کی سیاست کے حامل جناب کے۔ایچ۔ خورشید کی وفات کے بعد انکی جماعت لبریشن لیگ میں ضم کیااور لبریشن لیگ کے قائد بن گئے۔کچھ عرصہ بعد محسوس ہوا کہ انقلاب جناب بھٹو کی پارٹی میں شامل ہو کر لایاجاسکتاہے،پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر جاٹوں(اپنی برادری)کی دامے درمے حمایت کے سبب جناب زرداری کی “خوشنودی حاصل”کرکے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بن گے ،آمر مشرف کے دور میں اپنی پارٹی سے فاصلے اور مشرف سے قربتیں بڑھا کر وزارت عظمی کے پانچ سال پورے کرگئے۔وزارت عظمی تک پہنچانے والی تیسری جماعت سے بھی دل بھر گیا اور جناب لارڈ نذیرکے ذریعے چوتھی جماعت میں داخلے کے لئے میاں نواز شریف سے مسلسل رابطے میں رہے۔ ولایت میں یہ بات تہہ پاچکی تھی کہ میاں صاحب پاکستان آکر اپنی مسلم لیگ کی آزاد کشمیرشاخ قائم کریں گے اور اس کی سربراہی جناب سلطان محمود بیرسٹر کو سونپیں گے۔
میاں صاحب نے پاکستان آکر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ تو قائم کردی مگر اسکی سربراہی کا ہما بیرسٹرصاحب کی بجائے راجہ فاروق حیدر خان کے سر بٹھا دیا۔”میاں “نہ مانے تو کوئی بیچارہ کیاکرے چنانچہ بیرسٹر صاحب نے ایک بار پھر اپنی جماعت کھڑی کر لی۔ اس جماعت کے نام میں اپنی سابقہ محبوباوں کے نام کا کچھ حصہ ضرور شامل کیا،یعنی پیپلز پارٹی کا “پیپلز″آزاد مسلم کانفرنس کا “مسلم” اور لبریشن لیگ کے “لیگ” پر مشتمل “پیپلز مسلم لیگ “آزاد کشمیر قائم کر لی ۔جماعت کے قیام کے قلیل عرصے بعد ہی محسوس ہوا کہ انتخابات میں انکی اپنی جماعت کوئی انقلاب برپا نہ کرسکے گئی ۔فریال بی بی کو “راضی” کر کے نوزائیدہ پیپلز مسلم لیگ کو سابقہ انقلابی پیپلزپارٹی میں ضم کر دیا۔بیرسٹر صاحب کے گروپ کے نمایاں لوگ انتخابات جیت کر اسمبلی پہنچ گئے مگر فریال بی بی کے “سخت میرٹ″پر اس بار بیرسٹر صاحب کی بجائے انکی اپنی ہی برادری کے چوہدری عبدالمجید پورے اتر گے۔ چار سالوں میں بیچارے چوہدری مجید نے اپنی ہی پارٹی کے”فاسٹ بائولر”سلطان محمود کی سخت بائولنگ کا تندہی سے مقابلہ کیا اور عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنائی۔عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی اپنے پارٹی رہنمائوں کو سخت ہدایات بھی شامل تھی ںہ کہ وہ پیپلز پارٹی کے اندرونی معاملہ میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہیں۔
چابک دست چوہدری سلطان کی “نظر بد” سے بچنے کے لئے چوہدری مجید ”نذر نیاز ،صدقات ”کی مسلسل ادائیگی کے ساتھ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ وزیراعظم نہیں میں تو گڑھی خدابخش کی قبروں کا مجاور ہوں۔بیرسٹر صاحب نے بھانپ لیا کہ پیپلز پارٹی میں “مجاور” کی موجودگی میںانکی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ۔سوچ بچار اور “اہل خرد” کی “مخلصانہ” مشاورت کے بعد وہ 5فروری کو ولایت ہی سے تعلیم یافتہ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ بیرسٹر صاحب نے آزاد کشمیر اسمبلی کی میرپور کی نشست سے استعفیٰ دیدیا- اس نشست کے لئے پہلے پندرہ کو انتخاب ہونا تھا مگر نئی تاریخ کے مطابق اب 29 مارچ کو انتخاب ہونا ہے ۔2011ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے امیدوار چوہدری اشرف کو اندرون خانہ پیپلز پارٹی کے رہنما ء چوہدری عبدالمجید کی حمایت حاصل تھی ۔یہ انتخاب بیرسٹر صاحب ماضی کی نسبت مشکل سے جیتے تھے ۔ ضمنی انتخابات عمومی روایت کے مطابق حکمران جماعتیں آسانی سے جیتا کرتی ہیں،مگر حکمران پارٹی کے اصل رہنما ء کے پارٹی بدلنے سے پیپلز پارٹی کو سخت مشکل کاسامنا تھا۔ ابتدا میں گوجر برادری کے اعجاز رضا کو پارٹی ٹکٹ دینے کی سوچ بچار ہوئی تھی مگر وزیراعظم عبدالمجید کی شبانہ روز کی محنت اور “مکمل حکومتی امداد” کی پیشگی ادائیگی اور بقیہ کی انتخابات کے بعد تکمیل کی پختہ یقین دہانی کے بعد چوہدری اشرف مسلم کانفرنس کو داغ مفارقت دے گئے۔
شائع شدہ خبروں کے مطابق انتخابی اخراجات کے علاوہ تین کروڑ کی مالی اعانت،انتخابات جیتنے کی صورت میں وزارت اور شکست کی صورت میں “ادارہ ترقیات میرپور” کی چیئرمین شپ چوہدری اشرف کو دی جائیگی۔ماضی میں سلطان محمود کم کم ہی میرپور رہتے تھے یا انتخابی مہم میں حصہ لیتے تھے،ساری مشقت چوہدری نور حسین خود اٹھاتے تھے۔ سیاسی حرکیات مرحوم سے بہتر کون جانتا تھا۔ “ابا جی کے بغیر” پہلی بار بیرسٹر سلطان انتخابی معرکہ میں اترے ہیں۔ شروع میں کہا جا رہا تھا کہ بیرسٹر کو ہرانے کے لئے ون آن ون مقابلہ ہوگا۔
سلطان محمود نے اس چیلنج کو سنجیدگی سے لیاتھا اور پہلی بار وہ در در ووٹ کے حصول کے لئے گئے۔21 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ کچھ “برج” 29مارچ سے قبل گر بھی سکتے ہیں مگر وہ نہ بھی گرے تب بھی اصل مقابلہ اشرف وسلطان کے درمیان ہی ہے۔مسلم کانفرنس سے بے وفائی کی وجہ سے بھی چوہدری اشرف کو سخت سوالات کا سامنا ہے مگر وزیر اعظم کئی دنوں سے میرپور ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ،حکومتی وسائل کی بھر مار سے بیرسٹر کو سخت مشکلات کا سامنا ہے مگر کئی لوگوں کے کھڑا ہونے کا زیادہ تر فائدہ بھی انہی کو پہنچ رہاہے۔حکومت نے اگر چوہدری اشرف پر مال لٹایا ہے تو بیرسٹر صاحب کے چاہنے والے بھی بے دریغ مال خرچ کر کے کچھ امیدواروں کو دستبردار نہیں ہونے دے رہے کیونکہ کئی ایک کے کھڑا رہنے سے بیرسٹر مقدر کے ایک بار پھر سلطان ثابت ہو سکتے ہیں۔
سب کے سب امیدوار کھڑے رہے تو حکومتی نوازشات کے باوجود چوہدری اشرف کی جیت مشکل ہوگی۔اس انتخاب کی سب سے بری بات لوگوں کی وفاداریوں کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ اہل میرپور کے کانوں نے وہ پست جملے بھی سیاسی رہنمائوں سے سنے جو ماضی کی روایت نہ تھے۔اللہ کرے کہ 29مارچ کا یہ دن پر امن گزر جائے کیونکہ لہجوں کی تلخی کسی جانی نقصان سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔