اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر ور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت کا سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے آڈیو سکینڈل سے کا م کیا ہے، یہیں سے سارا سکینڈل شروع ہوتا ہے۔اب یہ واضح ہے اور چیف جسٹس کی آواز میں واضح ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ایک حکم کے تحت ، ایک سازش کے تحت سزا دلوائی گئی ، پہلے جج ارشد ملک کا معاملہ آیا ، پھر بیان حلفی کا معاملہ آیا اورآج آڈیو ریکارڈنگ بھی آگئی ۔ کوئی ادارہ ہے جو کہہ سکتاہے کہ جو چیف جسٹس نے عدالت میں مداخلت کرکے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دلوائی کم ازکم سزاتو ختم کریں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب آرڈیننس کا اثر کس پر ہے اور کس پر نہیں یہ سرکس ایک دن ختم ہوجائے گی، ہم نے پہلے بھی کافی بھگتا ہے، میں نے لاہور میں بھی کہا کہ نیب بننے سے پہلے پاکستانی شہری کی آمدن بنگلادیش اور بھارت دونوں سے بہت آگے تھی اور ا ج وہ بھارت اور بنگلادیش سے آدھی رہ گئی ، اس میں بڑا حصہ نیب کا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی تباہی میں اور حکومت کی تباہی میں ، ملک کے معاملات کی تباہی میں بڑا حصہ اس نیب کا ہے، یہ وہ نیب ہے کہ پچھلے چار سال میں 1.4ارب روپے ملک کے خزانے میں جمع کرواسکی ہے اور اسی عرصہ میں24ارب روپے خرچ کرچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں چیئرمین نیب سے بار، بار یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ اپنے ادارے یہ پوچھ لیں کہ 21سال میں انہوں نے کتنےا سیاستدانوں کو سزادی ہے اوران سے کتنی رقم برآمد کی ہے، یہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ملک کے حالات میڈیا کے سامنے ہیں، ہر روز ملک کے اندر ایک نیا سکینڈل آتا ہے، جواب دینے والا کوئی ہے نہیں، انصاف کا نظام جس پر عوام کا اعتماد پہلے ہی نہیں تھا آج اتنے شک اور شبہے پیدا ہو گئے ہیں کہ خوف آتا ہے کہ ملک کا بنے گا کیا، آج عوام کس کی طرف دیکھیں، حکومت کی ناکامی اور کرپشن عوام کے سامنے ہے، ملک میں عدل کے نظام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سامنے ہے،میڈیا کی حالت بھی سامنے ہے، مہنگائی عروج پر ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جتنی مہنگائی پاکستان میں ہورہی ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ عمران خان کی ناکامی اس کی حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنا کردار ادا کررہی ہے اور ملک کے نظام کو درست کرنے کا اور مہنگائی کو ختم کرنے کا واحد طریقہ واپس آئین پر آنے میں ہے، یہاں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے اور ملک کے لئے کام کرے، وہ جو عدالتیں نہ چلا رہے ہوں، وہ ضمانتیں نہ مستردکروارہے ہوں، وہ سزائیں نہ دلوارہے ہوں، یہ معاملات عدالت میں دلیل پر اور قانون کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، سفارشات پر کیسوں کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے آڈیو سکینڈل سے کا م کیا ہے، یہیں سے سارا سکینڈل شروع ہوتا ہے،ایک سابق چیف جسٹس کی آڈیو آئی ہے جو ایک مشہور صحافی نے عوام کے سامنے رکھی ہے، آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس آڈیو کی آواز چیف جسٹس کی نہیں ، میرااس آڈیو سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میں تعلق بنانا چاہتا ہوں، حکومت اس سے رشتہ قائم کرنا چاہتی ہے کہ یہ آڈیو غلط ہے، کیوں چاہتی ہے، آڈیو کس نے بنائی کیوں بنائی، میرااس سے کوئی واسطہ نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آڈیو میں ملک کا چیف جسٹس یہ کہہ رہا ہے ، اپنے الفاظ اور اپنی زبان میں، اپنے لہجے میں کہ مجھے حکم ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزادینی ہے، حکم کس کا ہے یہ پتا نہیں،
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس صاحب کس کو کہہ رہے ہیں وہ بھی بات ایک دن سامنے آجائے گی کہ دوسرا شخص جو اس ٹیلی فون کال پر ہے وہ کون ہے، چیف جسٹس صاحب جو مرضی کریں میرا اس سے بھی کوئی واسطہ نہیں ، قانون توڑانا چاہتے ہیں،قانون نہیں سمجھتے ، آئین کو توڑنا چاہتے ہیں یہ ان کی مرضی ہے لیکن اس کا اثر مجھ پر ہوتا ہے، اب یہ واضح ہے اور چیف جسٹس کی آواز میں واضح ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ایک حکم کے تحت ، ایک سازش کے تحت سزا دلوائی گئی ، پہلے جج ارشد ملک کا معاملہ آیا ، پھر بیان حلفی کا معاملہ آیا اورآج آڈیو ریکارڈنگ بھی آگئی ۔ مجھے تو انصاف چاہئے، آپ سارا دن چاہے فارنزک تجزیہ کروائیں یا جو مرضی کروائیں، میں تو پوچھتا ہوں کہ جو آواز ثاقب نثار کی ہے جس کے نتیجہ میں آپ نے مجھے سزادی، تین مرتبہ کے وزیر اعظم کو اور ہماری بہن مریم نواز کو سزادی، آج وہ سپریم کورٹ کو اقامے کی فیس نہ لینے پر حکومت توڑ سکتی ہے، کیا وہ اس بات کا ازخود نوٹس نہیں لے سکتی
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرا سوال صرف یہ ہے کہ میں انصاف کے لئے کس کے پاس جائوں گا۔ کیا آج ملک میں کوئی ادارہ ہے جس پر پاکستان کے عوام یقین کرسکتے ہیں، کوئی ادارہ ہے جو اس معاملہ میں انصاف دے سکتا ہے، کوئی ادارہ ہے جو کہہ سکتاہے کہ جو چیف جسٹس نے عدالت میں مداخلت کرکے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دلوائی کم ازکم سزاتو ختم کریں، حقیقت پاکستان کے عوام کے سامنے رکھیں، اتنی ہمت تو کریں، پوچھیں تو صحیح، کیا آپ ثاقب نثار سے پوچھ نہیں سکتے کہ آپ نے یہ بات کہی ہے کہ نہیں، الفاظ بڑے واضح ہیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔