مظفرآباد(صباح نیوز) صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر سردار تنویر الیاس خان نے 13جولائی یوم شہدا ئے کشمیر کے موقع پر اپنے الگ الگ پیغامات میں کہا ہے کہ یہ دن تحریک آزادی کشمیر کا ایک سنہری باب ہے،مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو کشمیریوں نے اپنے خون سے زندہ رکھا ہوا ہے، آزادی کے لیے اس شجاعت اور جذبے کی دنیا کی کسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،
اپنے پیغام میں صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ 13جولائی کا دن ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک میں تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے،1931میں آج کے دن جو قربانی پیش کی گئی وہ آج بھی کشمیریوں کیلئے مشعل راہ ہے، سری نگر سنٹرل جیل کے احاطہ میں کلمہ گو اور آزادی کے متوالوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے جس جد و جہد آزادی کی بنیاد رکھی تھی وہ آج تک جاری و ساری ہے،مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو کشمیریوں نے اپنے خون سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیس کیمپ کی حکومت لائن آف کنٹرل کے اس پار بسنے والے اپنے کشمیری بھائیوں کو ایک مرتبہ پھر یقین دلاتی ہے کہ مشکل کی ہر گھڑی میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور انہیں اپنے جسم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تحریک آزاد کشمیر، کشمیری عوام کی قربانیوں کی بدولت ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکی ہے۔
کشمیری عوام کے عزائم کے سامنے بھارت جھکنے پر مجبور ہو چکا ہے اور قابض فوج کے حوصلے پست ہو چکے ہیں مسئلہ کشمیر نے عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے اور دنیا اس مسئلہ کے حل میں گہری دلچسپی لے رہی ہے،وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان نے یوم شہدائے کشمیر پر اپنے پیغام میں کہاکہ 1931میں ڈوگرہ مہاراجہ کا ظلم و استبداد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا، مسلمانوں کا استحصال کیا جار رہا تھا۔ مساجد اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی جا رہی تھی۔ زمین کی ملکیت پر پابندی لگا دی گئی تھی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ محصولات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور حکمرانوں کی جبر و ظلم کے خلاف کسی بھی شخص کو آوا ز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس پس منظر میں 25 جون کو ایک جری شخص عبدالقدیر خان نے سرینگر میں خانقاہ معلی کے مقام پر ینگ مسلم ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ وہ مہاراجہ کی دہشت اور بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے پاس اگر ہتھیار نہیں ہیں تو ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑ یں۔ عبدالقدیر خان نے مہاراجہ کے شیر گڑھی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نا انصافی، دہشت اور غلام کی علامت عمارت کو گر ا دو۔عبدالقدیر اسی دن گرفتار ہوگیا تھا لیکن اس کی آواز، اس کی گرفتاری اور اس کے مقدمے کی سماعت نے خطہ کشمیر میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ لوگ مشتعل ہو گئے اور ان میں غم و غصے کی ایک لہردوڑ گئی۔ 13 جولائی کو جیل میں عبدالقدیر کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت جاری تھی اور جیل کے سامنے ایک ہجوم موجود تھا۔جب نماز کا وقت آیا تو ایک شخص اذان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ اذان مکمل کرتا ڈوگرہ پولیس نے اسے گولی مار کر بے دردی سے شہید کر دیا۔
اس شہادت کے بعد یکے بعد دیگر22 مسلمانوں اٹھے پولیس کی فائرنگ مسلسل جاری تھی لیکن بائیس مسلمانوں نے ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کیا اور اذان کو مکمل کیا۔ 1931 کے دوران کشمیری ڈوگرہ فوج کی دہشت گردی کے خلاف مسلسل مذاحمت کرتے رہے اور بہادر کشمیری ننگے سینے تانے سنگینوں اور گولیوں کا سامنا کرتے رہے اور شہادتیں پیش کرتے رہے۔شہدا میں کسی ایک کی پیٹھ پر گولی نہیں لگی بلکہ سب نے سینے پر گولیاں کھائی۔ آزادی کے لیے اس شجاعت اور جذبے کی دنیا کی کسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔