سرینگر(صباح نیوز) مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی عیدالاضحی کے باوجود جاری رکھیں ،عید کے دوران دوران حراست ایک نوجوان سمیت تین کشمیریوں کو شہید کردیا،شوپیاں کے علاقے میں مجاہدین نے بھارتی فوج کو پسپا کردیا ،کے پی آئی کے مطابق قابض فوجیوں نے پلوامہ میں دونوجوانوں کو ضلع کے علاقے وندک پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران شہید کیا ۔ قابض انتظامیہ نے علاقے میں انٹرنیٹ اورموبائل سروس معطل کردی ۔
ضلع شوپیاں میں مسلسل دوسرے دن بھی تلاشی اور محاصرے کی کارروائی جاری رکھی۔بھارتی فوجیوں نے ضلع کے علاقے ریبن میں تلاشی اور محاصرے کی کارروائی عید الاضحی کے دوسرے دن پیر کو شروع کی تھی۔ فوجیوں نے علاقے میں موبائیل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی اور آخری اطلاعات ملنے تک علاقے میں فوجی کارروائی جاری تھی،: ضلع شوپیاں کے علاقے ربن زینہ پورہ میں مجاھدین قابض ہندوتوا فوجیوں پر برق رفتار جہادی یلغار کرتے ہوئے محاصرہ توڑ کر بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔
علاوہ ازیں بھارتی پولیس نے سری نگر شہر میں ایک نوجوان کو گرفتار کر نے کے بعد دوران حراست بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا۔ نوجوان کو شہر کے علاقے نٹی پورہ سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ لوگوں نے شہید کی میت کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔انہوں نے اس دوران “ہم آزادی چاہتے ہیں ،ہم انصاف چاہتے ہیں” جیسے نعرے لگا ئے ۔دریںاثنا بھارتی پولیس نے ضلع راجوری کے علاقے کالاکوٹ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران ایک شخص کو گرفتار کر لیا
مقبوضہ جموں وکشمیرمیں 21سالہ نوجوان کے دوران حراست قتل کی افسوسناک کہانی
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پولیس حراست کے دوران قتل ہونے والے21سالہ نوجوان کے اہل خانہ نے بھارتی پولیس کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ وہ منشیات کا عادی تھا جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر اس کی موت واقع ہوئی ہے۔
اہلخانہ نے پولیس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایاکہ پولیس انہیں اسپتال پہنچانے کے بجائے نیم مردہ حالت میں ان کے گھر کیوں لے کر آئی؟53 سالہ شفیقہ کے بیٹے مسلم منیر لون کو پولیس نے 9 جولائی کو چوری کے ایک کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق سرینگر کے نوگام پولیس اسٹیشن کی ایک پولیس ٹیم ہفتہ کی صبح تقریبا 9:30بجے ان کے گھر آئی۔ شفیقہ نے صحافیوں کو بتایاایک پولیس والے نے مجھے بتایا کہ مسلم سے چوری کے ایک معاملے میں تفتیش کرنی ہے اور وہ اسے جلد ہی رہا کر دیں گے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ مارا جائے گا تو میں انہیں کبھی گھر میں داخل نہیں ہونے دیتی۔ شفیقہ نے کہا کہ وہی پولیس ٹیم دوبارہمارے گھر آئی۔ان کے مطابق وہ صرف مرد پولیس اہلکار تھے اور وہ ایک پرائیویٹ کار میں آئے تھے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے تھانے آنا پڑے گاکیونکہ مسلم بے ہوش ہوا ہے۔ شفیقہ نے کہامجھے خوف محسوس ہوا۔ سفر کے تقریبا 15منٹ بعد گاڑی اچانک رک گئی۔پولیس والے نے مجھے دوسری گاڑی میں جانے کو کہا جو سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔انہوں نے اپنے دوپٹے کے کونے کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا جس میں انہوں نے رقم رکھی تھی ،کہا کہ پولیس نے مجھ سے کچھ کاغذات پر دستخط کرائے اور مجھے 400روپے دیئے۔ میں گاڑی میں بیٹھی تو دیکھا کہ مسلم درمیانی سیٹ پر لیٹا ہواہے۔ وہ بات نہیں کررہاتھا۔پولیس اہلکار ہسپتال یا تھانے جانے کے بجائے خاتون اور اس کے بیٹے کو ان کے گھرلے آئے۔
وہ خود مسلم کو ایک کمرے تک لے آئے۔ ایک پولیس اہلکار نے ہمیں پنکھا آن کرنے اور پردے کھولنے کو کہا۔ مسلم بات نہیں کر رہا تھا لیکن انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ بے ہوش ہے۔مسلم کے کزن ذیشان نے صحافیوں کو بتایاکہ پولیس ٹیم کے جانے کے بعد مسلم کی حالت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ جب ہم نے اسے چیک کیا تو اس کی سانس رک چکی تھی۔ میں اسے فوری طور پر اپنی گاڑی میں قریبی نجی اسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔