نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ،مریم نواز شریف


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف کا بیان حلفی نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی ہے جو عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے، گلگت بلتسان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے جو انکشافات کئے ہیں اس  پر سب سے پہلا نوٹس جس کو جانا چاہیئے تھا وہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار تھے، ثاقب نثار نے صرف یہ کہہ کر پلا جھاڑ لیا کہ مجھے کیا مصیبت پڑی ہے کہ میں آکر جواب دوں یا عدالتوں کے چکر لگاؤں، یہ جواب جوآپ نے ظلم اور ناانصافی کی ہے یہ اس کا ثبوت ہے۔ میاں ثاقب نثار کو  علم ہونا چاہیئے کہ جب کوئی بیان حلفی آتا ہے تو اس کے جواب میں بھی بیان حلفی ہی لایا جاتاہے۔  تین ججز نے نواز شریف کی بے گناہی کی گواہی دی تاہم فیصلہ جوں کا توں ہے۔  ان ہاؤس تبدیلی جن کی وجہ سے اور جن کی مدد سے ہوتی ہے ہم ان کی مدد نہیں لینا چاہتے، ہم صرف عوام کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر اپنا فیصلہ چھوڑے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلی حکومت کا فیصلہ پاکستان کی عوام کرے۔جس طرح پی ٹی آئی وجود میں آئی تھی اسی طرح وہ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے، اس کی اتنی ہی زندگی تھی ،وہ پہلے دن سے وینٹی لیٹر پر تھی اور آکسیجن پرتھی۔

ان خیالات کااظہار مریم نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میںایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھے اور میاں محمد نواز شریف کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہلے دن سے بھروسہ تھا کہ ایک دن سچ سامنے آئے گا ، ایک دن پوری دنیا کو پتا چلے گا کہ کیا ہوا لیکن نہ میاں صاحب کو یہ پتا تھا اورمجھے یہ پتا تھا کہ وہ دن اتنی جلدی آجائے گا۔وہی حکومت ہے، وہی جعلی حکومت ہے، وہی عدالتیں ہیں، وہی طاقت کا غلط استعمال ہے ، وہی سازشی آج بھی موجود ہیں، لیکن قدرت کا نظام دیکھیں کہ ان کی موجودگی میں اور ان کے دور حکومت میں نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی اور شہادت عدلیہ کے اپنے اندر سے سامنے آئی ہے ،ہمیں یہ یقین تھا کہ ظالم کے دن گنے ہوتے ہیں اورظالم کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے، سن رکھا تھااور دیکھ بھی لیا تھا لیکن اتنی جلدی ظالم شکنجے میں آجائے گا اور اتنی جلدی حکومت میں اور طاقت میں رہتے ہوئے بے نقاب ہو جائے گا ، اس کا اندازہ نہ مجھے تھا اور نواز شریف کو تھا، اس لئے ہم سرجھکا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ جس جج محمد ارشد ملک مرحوم نے نوازشریف کو سزادی انہوں نے اپنی زندگی میں  اور اپنی ملازمت کے دوران نواز شریف کے حق میں گواہی دی، اس کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی جو اس معزز عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج تھے انہوں نے اپنی ملازمت کے دران نواز شریف کے حق میں گواہی دی اور کہا کہ جس شخص نے دوسال کی محنت کے نتیجہ میں نواز شریف کے مقدمے اور ان کے فیصلے زور، طاقت، دھونس اور دھاندلی سے کروائے ، وہ شخص ان کے پاس چل کر گیا،وہ شخص جو آج پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنا ہے اور اس کے پاس اپنے حق میں یا اپنی صفائی میں کہنے کے لیئے کوئی چیز نہیں ہے ، وہ شخص جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے پاس گیا اور کہا کہ یا نوازشریف کے کیس کے بینچ نہ بیٹھنا یا نواز شریف کو ضمانت نہیں دینی، اور اب گلگت بلتستان کی عدالت کے چیف جج کی گواہی آگئی کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں نثار نے ان کے سامنے فون پر کہا بلکہ یہ گارنٹی لی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے قبل ضمانت نہیں دی جائے گی اور جب یہ ان سے پوچھا گیا کہ یہ آپ کیوں کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اورپنجاب کے معاملات بہت فرق ہوتے ہیں آپ ایسے ایکٹ کریں کہ جیسے آپ نے یہ بات سنی ہی نہیں یعنی کہ اپنی مجبوری کا بھی اظہار کیا اور اس بات سے انکار بھی نہیں کیا کہ میں تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافی کرنے جارہا ہوں۔ بجائے اس کے کہ نواز شریف کو پہلی گواہی پر انصاف ملتا، شوکت عزیز صدیقی کی گواہی پر انصاف ملتا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز ترین جج تھے اور انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران یہ سوال اٹھایا اور یہ شہادت دی بجائے یہ کہ ان کی اس شہادت پر ایکشن لیا جاتا اور نواز شریف کو انصاف دیا جاتا، بھلے جسٹس شوکت عزیز کو بلا لیتے، جنرل فیض صاحب کو بلا لیتے ، دونوں کو بلاتے اور دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی کرتے، بلکہ آپ نے اس معزز جج کو نوکری سے فارغ کردیا اور آپ سچ بولنے کی پاداش میں اس کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے گئے،لیکن وہ ابھی تک وہ اپنے لئے انصاف کے منتظر ہیں اور اپنے مقدمہ کی باری آنے کے منتظر ہیں ، جس ملک میں جو منصف ہیں انہیں کو انصاف نہ ملے تو پھر ہمیں انصاف کی فراہمی تو بہت دور کا خیال ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کی شہادت آئی بجائے یہ کہ ان کے الزامات کی تحققیات ہوتیں ، آپ نے  انہیں ہی نوکری سے برخاست کردیا اور معاملہ کو اس طرح دبا دیا جس طرح یہ کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ بجائے یہ کہ اس بات کی تحقیقات کرتے کہ ارشد ملک کو اس کی ویڈیو کس نے دکھائی اور کیوں بلیک میل کیا۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ اب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے جو انکشافات کئے ہیں اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں توہین کا نوٹس ان کو دیا ہے، انصار عباسی نے یہ خبر دی اور جس میڈیا ہائوس نے یہ خبر چلائی اس کو بلا لیا گیا اور ان پیغام رساں ہونے کی سزا یہ دی گئی کہ ان کے اوپر توہین لگادی گئی اور اس کا نوٹس جاری کردیا گیا، حالانکہ سب سے پہلا نوٹس جس کو جانا چاہیئے تھا وہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار تھے، ثاقب نثار نے صرف یہ کہہ کر پلا جھاڑ لیا کہ مجھے کیا مصیبت پڑی ہے کہ میں آکر جواب دوں یا عدالتوں کے چکر لگائوں، یہ جواب جوآپ نے ظلم اور ناانصافی کی ہے یہ اس کا ثبوت ہے۔ جب نواز شریف او رمجھ پر الزام لگا توہمارا پہلا ردعمل کیا تھا ہم نے کہا ہم بے قصور ہیں اور ہم کھڑے ہیں ، ہمارا احتساب کرو اور ہم نے جعلی مقدموں کے اندر 200کے قریب پیشیاں بھگتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں ثاقب نثار ساری زندگی انصاف اورقانون کے طالب علم رہے ہیں اور انصاف فراہم کرنے والی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ رہے ہیں اور آپ نے یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ میں کیوں اس میں آئوں، نہ میں انکار کررہا ہوں اور نہ میں اقرارکررہا ہوں ، مجھے کیا ضرورت پڑی ہے عدالتوں کے چکر لگانے کی۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ نواز شریف تو تین دفعہ کا وزیر اعظم تھا اس نے اپنے پورے خاندان سمیت اور اپنی بیٹی سمیت آج ہمیں پانچواں سال ہے ان جھوٹے مقدمات میں عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے، اگر 22کروڑ عوام کا منتخب اپنا آفس چھوڑ سکتا ہے ، عدالتوں کے سامنے پیش ہو سکتاہے ، ججز کے سامنے پیش ہوسکتا ہے، قانون کے سامنے پیش سر جھکا سکتا ہے، بے گناہ ہوتے ہوئی بھی آئین کے سامنے سرجھکاتاہے توآپ آئین اور قانون سے ماوراء کس طرح ہو گئے اور آپ کو یہ علم ہونا چاہیئے کہ جب کوئی بیان حلفی آتا ہے تو اس کے جواب میں بھی بیان حلفی ہی لایا جاتاہے۔ آپ جھوٹے مقدمات میں وزیر اعظم کو عدالتوں کے چکر لگواسکتے ہیں ، عوام کے منتخب نمائندوں کو چکر لگواسکتے ہیں لیکن آپ ایک سچے الزام پرجس کا ثبوت پوری دنیا نے دیکھا اس میں آپ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ تین ججز نے نواز شریف کی بے گناہی کی گواہی دی تاہم فیصلہ جوں کا توں ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھاکہ میں توقع رکھتی ہوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ، سابق چیف جج گلگت بلتسان کے بیان حلفی کے معاملہ میں سچ کو سامنے آنے دیں گے اور سچ کو توہین نام نہیں دیں گے اور سچ کے راستے میں جو دشواریاں اور رکاوٹیں ہیں ان کو دورکریں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے کہا کہ میں بھی قرآن پر ہاتھ رکھتا ہوں اور میاں ثاقب نثار بھی قرآن پر ہاتھ رکھیں اور فیصلہ کر لیں کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے، جو سچا تھا اس نے یہ بات کردی اور جو جھوٹا تھا وہ دوڑ گیا اب وہ نہ ہی عدالت میں آئے گا اور نہ ہی کسی ٹی وی انٹرویو میں میڈیا کے سوالوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گا کیوں کہ اس کے پاس اپنے مظالم کا کوئی جواب نہیں ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ پانامہ، پانامہ کرتے ہوئے جو اقامے پر ذلت کا سفر اختتام پزیر ہوا وہ ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کو ان مشکلات اور تباہی سے نکالنا ہے  جس میں عمران خان نامی شخص اس کو دھکیل چکا ہے تواس کا ایک ہی راستہ ہے اورہ صاف اور شفاف انتخابات  ہیں، عوام کے راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے راستے میں بند نہ باندھیں، اس سے آپ کو بہت سخت نقصان ہو گااور ناقابل تلافی نقصان ہو گا، صاف اور شفاف انتخابات ہونے دیں اور عوام کو ان کے نمائندے چننے دیں ۔

ان کا کہنا کہ ان ہائوس تبدیلی جن کی وجہ سے اور جن کی مدد سے ہوتی ہے ہم ان کی مدد نہیں لینا چاہتے، ہم صرف عوام کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر اپنا فیصلہ چھوڑے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلی حکومت کا فیصلہ پاکستان کی عوام کرے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب نے آج عدالت سے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے کیونکہ ان کے پاس کسی چیز کا کوئی جواب نہیں۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ آپ عدالت میں آنے والے کو قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر سچ بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور آپ خود جھوٹ بولتے ہیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص اب سامنے آئے گا نہ ہی کسی بات کا جوابدے گا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پی کے ایل آئی جیسا ادارہ بنایا تاکہ لوگ جگر جیسے امراض کے لیے بھارت جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں علاج کرواسکیں ثاقب نثار نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے وہ ادارہ بند کردیا۔حکومتی اتحادیوں سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو حکومت بھیک پر چل رہی ہو اس کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔