اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں موجودہ قرضے معیشت کے لیے نقابل برداشت بوجھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کی کمی نہیں تاہم ترسیل کے ناکافی نظام، کمتر ریکوری اور مہنگے ایندھن کی وجہ سے ہم طلب کے مطابق بجلی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔
اس امر کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی)، پرائیویٹ پاور ایند انفراسٹکچر بورڈ اوریونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ساتھ ایند پیسفک کے اشتراک سے پائیدار ترقی کے ہدف 7 اور پاکستان کے لیے امکانات کے موضوع پرمنعقد ہ ورکشاپ کے دوران اپنے کلیدی کلمات میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اہم ملک میں قابل تجدید توانائی کی حوصلہ افزائی پر مبنی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں۔
رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشید نے کہا کہ ملک میں قابل تجدید توانائی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس کے فوائد معاشرے کے تمام طبقات تک پہچائے جا سکیں۔ پی پی آئی بی کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہجہان مرزا نے کہا کہ پاکستان کا کاربن کا اخراج انتہائی کم ہونے کے باجود سال 2030تک قابل تجدید توانائی 30% تک لے جانے کا فیصلہ کیا جو انتہائی خوش آئند ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے قبل ازیں اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ ملک میں تونائی کی بلند قیمت کی وجہ سے قابل تجدید توانائی کا بطور متبادل ا نحصار میں اضافہ متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایندھن پر سبسڈی کا خاتمہ آئی ایم ایف کے ساتھ مزاکرات کے حوالے سے انتہائی اہم معاملہ تھا۔یو این ای ایس سی اے پی کے نمائندے مسٹر سرگی نے کہا کہ کووڈ۔19سے پیدا شدہ بحران نے ہم سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ ادارہ دنیا بھرکی حکومتوں کو شفاف توانائی کے لیے فریم ورک کی تیاری میں مدد دے رہا ہے جس سے انتہائی مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔
این ای ای سی اے کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار معظم نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کی بنیادی وجوہات کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔بورڈ آف انوسٹمنٹ کے ڈاکٹر ذوالفقار علی نے کہا کہ پاکستان میں قابل تجدیدتوانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی زبردست استعداد موجود ہے۔حکومت اس شعبے میں کاروبار کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔