بی جے پی حکومت نے کشمیری قیادت کو ختم کرنے کی منظم مہم شروع کر دی،نعیمہ احمد مہجور


 سری نگر(کے پی آئی)برطانیہ میں مقیم کشمیری خاتون صحافی نعیمہ احمد مہجور نے خبردار کیا ہے کہ  بی جے پی حکومت کشمیری قیادت کو ختم کرنے کی ایک منظم مہم کے تحت  محمد یاسین ملک کے ساتھ افضل گورو جیسا سلوک کر سکتی ہے ۔ یاد رہے کشمیری رہنما محمد افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش کے الزام میں9 فروری 2013 کوتہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی  تھی۔

کے پی آئی کے مطابق  نعیمہ احمد مہجور نے غیر ملکی نیور پورٹل میں لکھا ہے کہ بیشتر کشمیریوں کو پکا یقین ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت یاسین ملک کو افضل گورو بنانا چاہتی ہے، جنہیں کانگریس حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تھا۔انسانی حقوق کے کارکن محمد حفیظ کہتے ہیں، بی جے پی نے  یاسین ملک کو افضل گورو بنانے کا سکرپٹ کافی عرصہ پہلے لکھ کے رکھا ہے اور جس کی تخلیق میں بعض کشمیری پنڈتوں نے اہم کردار نبھایا ہے جو آزادی پسند لیڈرشپ کو ختم کرنے کی ایک منظم مہم چلا رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ کشمیری اس وقت شدید ذہنی دبا کا شکار ہیں، انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں، انتظامیہ سے لاتعلق ہیں اور ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں کر پارہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے  یاسین ملک کی سزا پر روایتی بیانات جاری کیے ہیں مگر کشمیریوں کو جو امید حکومت پاکستان سے تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور وہ برہم نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کی اندرونی سیاسی افراتفری کا اثر کشمیر اور کشمیر کی تحریک کے لیے ہمیشہ سم قاتل ثابت ہوا ہے۔

بی بی سی سے وابستہ رہنے والی   نعیمہ احمد مہجور نے لکھا ہے چند برس قبل میں نے جیل سے رہائی پانے والے لبریشن فرنٹ کے رہنما محمدیاسین ملک سے پوچھا کہ بار بار جیل اور بار بار رہائی کے بعد کیا آپ کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس جدوجہد کو چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے زندگی کو بھی جینا چاہیے؟اس کے جواب میں وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے بعد کہنے لگے، میری جدوجہد میرا جنون ہے، میرا خواب میرے وطن کی آزادی ہے اور میرا گھر ہندوستان کی جیل ہے، اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟میں نے پوچھا، پھر شادی کیوں کی، کیا آپ کی اہلیہ کو ہمیشہ آپ سے جیل میں ہی ملنا ہوگا؟

انہوں نے کہا، مشال کو میرے جنون کا علم تھا اور اسی لیے میرے نصیب کے ساتھ جڑ گئی، آزادی میرا جنون ہے اور میں اس کا جنون بن گیا ہوں۔یاسین ملک کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر میری اکثر بحث ہوا کرتی تھی جو ہمیشہ تکرار پر ختم ہو جاتی۔ بندوق اٹھانے سے لے کر بندوق چھوڑنے اور پھر پرامن تحریک کی اس جدوجہد کے دوران میں نے بی بی سی کے لیے متعدد بار ان سے انٹرویو کیے، جن کے دوران ان کی باتوں سے ان کا جذبہ آزادی ظاہر ہو جاتا لیکن ساتھ ہی لبریشن فرنٹ کے حصے بخرے ہونے سے وہ اپنی تکلیف کا اظہار کرتے وقت آبدیدہ ہو جاتے تھے۔

یاسین ملک جیل آتے جاتے رہتے تھے۔ اب جیل ان کے اصلی گھر کی طرح ہے، لیکن اس پر میری طرح بہت سے کشمیریوں کو اچنبھا نہیں ہوا۔ اچنبھا تب ہوتا جب وہ جیل میں نہیں ہوتے تھے۔ان کا آبائی علاقہ مائسمہ تحریک کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے لیے مشہور رہا ہے، بلکہ ایک زمانے میں کوئی بھی کشمیری جب رشتہ ازدواج کے لیے مائسمہ جاتا تھا تو مذاقا کہا جاتا کہ دلہن جہیز کے بجائے پتھروں سے بھرے ٹرنک لے کے آئے گی۔یہ ہر ایک کی دانست میں ہے کہ ہندوتوا کے ریڈار پر کشمیر کے تمام آزادی پسند رہنما ہیں جنہیں سیاسی منظر نامے سے غائب کر دیا گیا ہے مگر یہ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ مین سٹریم لیڈروں  ( بھارت نواز) کے لیے بھی کشمیر کی سر زمین تنگ کی جائے گی حتی کہ الحاق ہندوستان کے حامی مقبول ترین رہنما شیخ محمد عبداللہ بھی اب متنازع بن گئے ہیں،

جن کا نام تاریخ کی کتابوں سے حذف کرنے کا اقدام بھی اٹھایا جارہا ہے۔بھارت کی مختلف جیلوں میںیاسین ملک سمیت درجنوں آزادی پسند رہنما اسیر ہیں جن میں شبیر شاہ، نعیم خان، انجینیئر عبدالرشید، مسرت عالم وغیرہ شامل ہیں۔سنگ باز کہلانے والے نوجوانوں کی ایک بھاری تعداد بھی مختلف جیلوں میں کئی برسوں سے محبوس ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔یاسین ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان سے لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کی مالی معاونت سے کشمیر میں 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت کی سالمیت کے خلاف عوام کو اکسایا۔

واضح رہے برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیر میں سخت تشدد بھڑک اٹھا تھا اور جلسے جلوس نکالے گئے تھے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے 10 ہزار کے قریب افراد کو بینائی سے محروم کردیا تھا۔یاسین ملک پر ٹیرر فنڈنگ کے علاوہ ملک سے غداری کرنے اور بھارت کے خلاف عوام کو بھڑکانے کا الزام بھی عائد ہے۔ان کے وکیل نے کئی بار شکایت کی کہ عدالت میں انہیں دلائل پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔یاسین ملک نے جج سے کئی بار کہا کہ انہیں اپنا کیس خود لڑنے کی اجازت دی جائے لیکن بقول ان کی بہن کے، عدالت نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔